پیش خیمہ

( پیش خَیمَہ )
{ پیش (ی مجہول) + خَے (ی لین) مَہ }

تفصیلات


فارسی سے ماخوذ اس 'پیش' کے ساتھ عربی اسم مذکر 'خیمہ' ملنے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے سب سے پہلے ١٨٣٨ء کو "گلزار نسیم" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - وہ سامان (خصوصاً خیمہ ڈیرا) جو کوچ سے پہلے بھیجا جائے (تاکہ منزل پر سب کچھ تیار ملے)؛ ملاقاتیوں یا مہمانوں کے لیے مخصوص خیمہ۔
"ہنوزان کا ڈیرہ یا پیش خیمہ نہیں آیا نگینہ کا فساد رفع ہو گیا ہو"      ( ١٨٥٧ء، مقالاتِ سر سید، ٣٧١ )
٢ - کسی امر کے وقوع یا ظہور کی حالت یا تمہید، پہلے پیش آنے والی حالت یا صورت۔
"ضائع بدائع شاعری کے زوال کا پیش خیمہ ہے"      ( ١٩٠٧ء، شعرالحجم، ١٦٧:١ )
٣ - ہر کارہ، پیادہ، ملازم۔
آدم کی یہ نظر قولِ ملائکہ کا پیش خیمہ تھی"      ( ١٩٣٤ء، قرآنی قصے، ١١ )
٤ - مقدمۃالجیش، ہر اول دستہ، کسی جماعت کا نمائندہ جو جماعت سے پہلے آئے۔
"آپ اس جماعت کے پیشہ خیمہ ہیں"      ( ١٩٢٤ء، مکاتیب اقبال، ١٤٠:١ )