چمکانا

( چَمْکانا )
{ چم + کا + نا }
( ہندی )

تفصیلات


چَمْک  چَمْکانا

ہندی زبان سے ماخوذ لفظ'چمک' کے ساتھ اردو میں 'نا' بطور لاحقۂ صفت لگانے سے پہلے الف لگا کر 'چمکانا' بنا اور بطور فعل مستعمل ہے۔ ١٨٣١ء کو "دیوان ناسخ" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل متعدی
١ - روشن کرنا، جگمگا دینا۔
 کب شب گیسوئے مشکیں کی سیاہی کم ہوئی تیری افشاں نے ستارے گو کہ چمکائے بہت      ( ١٨٧٠ء، دیوان اسیر، ١١٣:٣ )
٢ - فروغ دینا، رونق بخشنا، ترقی دینا۔
"اس غیر متوقع امداد سے اس نے اپنے کاروبار کو چمکایا اور خوب نفع کمایا۔"      ( ١٩٤٦ء، شیرانی، مقالات، ١٠٩ )
٣ - نمایاں کرنا، پھیلانا، مشتہر یا مشہور کرنا۔
"پہلے بادشاہوں کی بھلائیوں کو ہمیشہ چمکایا اور ان کی برائیوں کو چھپایا ہے۔"      ( ١٩٢٠ء، اردو گلستان، ٧١ )
٤ - تیز کرنا، بڑھانا، اکسانا۔
"اس نے راگ میں رنگ کو ملایا عشق کو چمکایا۔"      ( ١٩٢٤ء، اختری بیگم، ٢٥٨ )
٥ - سواری کے جانور (عموماً گھوڑے) کو دوڑانا، رفتار تیز کرنا۔
"ایرج نوجوان نے ایک سوار کو مار کر گھوڑا لیا اور چمکا کر قید خانے سے نکلے۔"      ( ١٩٠٠ء، طلسم خیال سکندری، ١٣٢:٢ )
٦ - بھڑکانا، غصہ دلانا۔
"چچا کسی کی دھونس میں نہیں آتے، اول تو بولتے ہی نہیں اگر کوئی انھیں چمکا دے تو وہ لچھے دار باتیں کرتے ہیں کہ مزا آ جاتا ہے۔"      ( ١٩٦٧ء، اجڑا دیار، ١١٢ )
٧ - (کسی کو) ڈانٹنا ڈپٹنا، ڈرانا دھمکانا۔
 وہ میرے خواب میں بھی آئے چمکاتے ہی دھمکاتے ستم دیکھو کہ اس پر ہاتھ میں خنجر بھی عریاں تھا      ( ١٩١٠ء، کلیات شائق، ٦٢ )
٨ - تمسخر آمیز حرکات کے ساتھ تمسخر کرنا۔ (سرمایۂ زبان اردو، 142)