پینا

( پِینا )
{ پی + نا }
( ہندی )

تفصیلات


پینا  پِینا

ہندی سے اردو میں اصل صورت اور مفہوم کے ساتھ داخل ہوا۔ بطور فعل اور گاہے بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٦١١ء کو "کلیات قلی قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل متعدی
١ - کسی سیال شے کو حلق سے اتارنا۔
"کوئی کھاتا تھا اور کوئی پیتا تھا، اور کوئی سوتا تھا اور کوئی روتا تھا۔"      ( ١٨٠٠ء، قصہ گل و ہرمز، ورق )
٢ - (حقے یا سگریٹ وغیرہ کا) کش یا دم کھینچنا۔
"منوہر ابھی . چلم ہی پی رہا تھا کہ بندا مہراج آ کر بیٹھ گئے۔"      ( ١٩٢٢ء، گوشۂ عافیت، ١٦٧:١ )
٣ - جذب کرنا، چوسنا۔
"(چاول) چار روز تک بھیگے رہیں، اچھی طرح پانی پی لیں۔"      ( ١٩٠٨ء، صبح زندگی، ١٤٣ )
٤ - برداشت کرنا، ضبط کر لینا، (ناگوار یا خلافِ منشا بات کا) جواب نہ دینا اور خاموش ہو جانا۔
 پیتے رہے ہمیشہ ہم شکوہ ہاے دشمن ٹوٹا نہ ایک دن بھی پیمانۂِ محبت    ( ١٩٣٥ء، ناز، گلدستۂ ناز، ٦٥ )
٥ - [ مجازا ] (آتے ہوئے آنسوؤں کو) روکنا۔
 اشک پیتا ہوں تو کھاتا ہوں میں غم آٹھ پہر اور اوقات بسر ہونے کی صورت کیا ہے    ( ١٩٣٢ء، بے نظیر، کلامِ بے نظیر، ١٦٧ )
٦ - شراب نوشی کرنا، دارو نوشی کرنا، نشہ آور سیال حلق سے اتارنا۔
 واعظ ثبوت لائے جو مے کے جواز میں اقبال کو یہ ضد ہے کہ پینا بھی چھوڑ دے      ( ١٩٢٤ء، بانگِ درا، ١١٢ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : پِینے [پی + نے]
١ - مشروب۔
 وہی ابرِ کرم تیرا بھی اے سجاد ہے رازق ضمانت جس نے لی ہے انس و جاں کے کھانے پینے کی      ( ١٨٩٤ء، سجاد رائے پوری، قلمی نسخہ، ٣ )