ٹھکرانا

( ٹُھکْرانا )
{ ٹُھک + را + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


توکش+کر  ٹھوکر  ٹُھکْرانا

سنسکرت کے اصل لفظ 'توکش+کر' سے ماخوذ اردو زبان میں 'ٹھوکر' مستعمل ہے 'ٹھ' پر 'ضمہ' لگا کر 'واؤ' کو حذف کر دیا گیا اور الف زائد لگا کر اردو لاحقۂ مصدر 'نا' لگانے سے 'ٹھکرانا' بنا اردو میں بطور مصدر مستعمل ہے ١٨٥٤ء میں "ذوق" کے ہاں مستعمل ملتا ہے۔

فعل متعدی
١ - ٹھوکر سے روندنا، (ذلیل جان کر) لات مارنا، (مجازاً) ذلیل و خوار کرنا۔
 یہ تربت عاشق ہے، ٹھکرا کے نہ چل غافل اس خاک کا ہر ذرہ خورشید بداماں ہے      ( ١٩٣٤ء، شعلۂ طور، ١١٨ )
٢ - ترک کرنا، چھوڑ دینا۔
"صلح کی جو صورت قرار پائی تھی وہ ٹھکرا دی گئی"    ( ١٩٦٨ء، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ٤٨٢:٣ )
٣ - رد کرنا، قبول نہ کرنا۔
"آپ کی لونڈی آپ کے روبرو کھڑی نگاہ کرم کی بھیک مانگ رہی ہے کیا اس کے سوال کو ٹھکرا دیجئے گا"    ( ١٩٣٥ء، دودھ کی قیمت، ٢١ )
٤ - گھوڑے کے ایڑ لگانا۔
"شاہ نے یہ سن کر مرکب کو ٹھکرایا"      ( ١٩٠٠ء، طلسم خیال سکندری، ٦٢:٢ )
  • رونْدْنا
  • to kick against
  • to strike the foot against;  to kick
  • trample upon;  to spurn