اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - گھر، منزل، مقام، (ٹھہرنے کی) جگہ۔
"دلی میں ٹھہرنے کا ٹھکانا مشکل ہے۔"
( ١٩٠٢ء، زبان داغ، ٦١ )
٢ - بھنگی چمار یا دوسرے ادنٰی پیشہ ورانہ خدمت گاروں کی لگی بندھی جگہ محلہ یا مکان۔
"چوڑی والیوں کے بھی ٹھکانے بندھے ہوئے تھے۔"
( ١٩٦٢ء، ساقی جولائی، ٤٦ )
٣ - [ مجازا ] سہارا، بل بوتا، ذریعہ۔
سہارا تھا ماتا کا وہ بھی نہیں اب نہیں کوئی میرا ٹھکانا کہیں اب
( ١٩٠١ء، مظہرالمعرفت، ١ )
٤ - [ مجازا ] دھنگ، سلیقہ، طور۔
"یہ عجب آدمی ہے نہ ٹھکانے سے بھاگتا ہے نہ ڈرانے سے ڈرتا ہے۔"
( ١٨٠١ء، آرائش محفل، حیدری، ٨٧ )
٥ - بجا، قرار۔
نہ ہوش اپنا ٹھکانے سے نہ دل اپنا ٹھکانے سے محبت میں کہیں اپنا ٹھکانہ ہو تو کیوں کر ہو
( ١٨٤٩ء، کلیات ظفر، ٩٤:٢ )
٦ - [ مجازا ] پتا، نشان، سراغ۔
کھوئے گئے ہم ایسے ملتا نہیں ٹھکانا جب سے ہوا ہے سودا اس بت کی جستجو کا
( ١٨٨٦ء، دیوان سخن، ٧٩ )
٧ - [ عوام - مجازا ] رشتہ، رشتہ داری، بیاہ (ہونا کے ساتھ) (تاکہ لڑکی کے رہنے کی جگہ یا مکان میسر ہو سکے)۔
"پہلے بہن نادری اور جعفری کا ٹھکانا ہو جائے۔"
( ١٩٢٤ء، اختری بیگم، ٣٣٩ )
٨ - اعتبار، بھروسا(کا کے ساتھ)
"زندگی کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔"
( ١٩٣٣ء، میرے بہترین افسانے، ٥٦ )
٩ - جائے قرار، مرکز۔
تیرا نیاز مند جو اے نازنیں نہیں دونوں جہاں میں اس کا ٹھکانا نہیں
( ١٨٤٦ء، آتش، کلیات، ١١٥:١ )
١٠ - حد، حد و حساب، انتہا۔
شک انھیں مجھ پہ کار دانی کا کچھ ٹھکانا ہے بدگمانی کا
( ١٩٥٠ء، دیوان حسرت موہانی، کلیات، ٥٧ )
١١ - موقع، جائے وقوع، نشان زدہ مقام، اڈا۔
"بم باروں نے آج دو مرتبہ . ویٹ کانک کے ٹھکانوں پر بمباری کی۔"
( ١٩٦٦ء، 'جنگ' کراچی، ٣٠، ١:١٨٠ )