ٹھکانا

( ٹِھکانا )
{ ٹِھکا + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


ستھان+کہ  ٹِھکانا

سنسکرت کے اصل لفظ 'ستھان + کہ' سے ماخوذ اردو زبان میں 'ٹھکانا' مستعمل ہے۔ اردو میں اصل معنی میں ہی بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٨٠١ء میں حیدری کی "آرائش محفل" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : ٹِھکانے [ٹِھکا + نے]
جمع   : ٹِھکانے [ٹِھکا + نے]
جمع غیر ندائی   : ٹِھکانوں [ٹِھکا + نوں (واؤ مجہول)]
١ - گھر، منزل، مقام، (ٹھہرنے کی) جگہ۔
"دلی میں ٹھہرنے کا ٹھکانا مشکل ہے۔"      ( ١٩٠٢ء، زبان داغ، ٦١ )
٢ - بھنگی چمار یا دوسرے ادنٰی پیشہ ورانہ خدمت گاروں کی لگی بندھی جگہ محلہ یا مکان۔
"چوڑی والیوں کے بھی ٹھکانے بندھے ہوئے تھے۔"      ( ١٩٦٢ء، ساقی جولائی، ٤٦ )
٣ - [ مجازا ]  سہارا، بل بوتا، ذریعہ۔
 سہارا تھا ماتا کا وہ بھی نہیں اب نہیں کوئی میرا ٹھکانا کہیں اب      ( ١٩٠١ء، مظہرالمعرفت، ١ )
٤ - [ مجازا ]  دھنگ، سلیقہ، طور۔
"یہ عجب آدمی ہے نہ ٹھکانے سے بھاگتا ہے نہ ڈرانے سے ڈرتا ہے۔"      ( ١٨٠١ء، آرائش محفل، حیدری، ٨٧ )
٥ - بجا، قرار۔
 نہ ہوش اپنا ٹھکانے سے نہ دل اپنا ٹھکانے سے محبت میں کہیں اپنا ٹھکانہ ہو تو کیوں کر ہو      ( ١٨٤٩ء، کلیات ظفر، ٩٤:٢ )
٦ - [ مجازا ]  پتا، نشان، سراغ۔
 کھوئے گئے ہم ایسے ملتا نہیں ٹھکانا جب سے ہوا ہے سودا اس بت کی جستجو کا      ( ١٨٨٦ء، دیوان سخن، ٧٩ )
٧ - [ عوام - مجازا ]  رشتہ، رشتہ داری، بیاہ (ہونا کے ساتھ) (تاکہ لڑکی کے رہنے کی جگہ یا مکان میسر ہو سکے)۔
"پہلے بہن نادری اور جعفری کا ٹھکانا ہو جائے۔"      ( ١٩٢٤ء، اختری بیگم، ٣٣٩ )
٨ - اعتبار، بھروسا(کا کے ساتھ)
"زندگی کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔"      ( ١٩٣٣ء، میرے بہترین افسانے، ٥٦ )
٩ - جائے قرار، مرکز۔
 تیرا نیاز مند جو اے نازنیں نہیں دونوں جہاں میں اس کا ٹھکانا نہیں      ( ١٨٤٦ء، آتش، کلیات، ١١٥:١ )
١٠ - حد، حد و حساب، انتہا۔
 شک انھیں مجھ پہ کار دانی کا کچھ ٹھکانا ہے بدگمانی کا      ( ١٩٥٠ء، دیوان حسرت موہانی، کلیات، ٥٧ )
١١ - موقع، جائے وقوع، نشان زدہ مقام، اڈا۔
"بم باروں نے آج دو مرتبہ . ویٹ کانک کے ٹھکانوں پر بمباری کی۔"      ( ١٩٦٦ء، 'جنگ' کراچی، ٣٠، ١:١٨٠ )