چور

( چُور )
{ چُور }
( سنسکرت )

تفصیلات


چورنن  چُور

سنسکرت زبان کے لفظ 'چورنن' سے ماخوذ 'چور' اردو میں بطور صفت مستعمل ہے گاہے اسم بھی استعمال ہوتا ہے۔ ١٥١٨ء کو "لطفی (اردو، کراچی)" میں مستعمل ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - چُورا۔
 بس اک ہمیں ہیں ڈھول میں پول اور خدا کا نام بسکٹ کا صرف چور ہے لمنڈ کا پھین ہے      ( ١٩٢١ء، اکبر، کلیات، ١٥٠:٢ )
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
١ - ریزہ ریزہ، ٹکڑے ٹکڑے۔
"نصیر نے گلاس خالی کر کے برج موہن کے گلاس پر دے مارا، دونوں ایک چھناکے کے ساتھ چور ہو گئے۔"      ( ١٩٥٤ء، شاید کہ بہار آئی، ٢٦ )
٢ - مست، سرشار، غرق، محو، منہمک۔
"ایک بہت ہی ذہین و عالم ہے اور علم کے غرور میں چور۔"      ( ١٩١٣ء، تمدن ہند، ١٣٨ )
٣ - نشے میں دھت، بدمست، مدہوش، مخمور۔
 عجیب چیز ہے مے خانۂ تصور بھی یہاں سے ہوش میں پہنچے وہاں سے چور آئے      ( ١٩٣٤ء، شعلۂ طور، ٨٩ )
٤ - نڈھال، کمزور، تھکا ماندہ۔
"وہ سرنگا پٹم کے دروازے پر زخموں سے چور نقش بے جاں ہو کر گرا۔"      ( ١٩٤٦ء، شیرانی، مقالات، ١٨ )
٥ - بہت زیادہ، حد درجہ۔
"ان دونوں بے رحموں نے بخاطر جمع میرے تئیں چور زخمی کیا اور لہولہان کر دیا۔"      ( ١٨٠٢ء، باغ و بہار، ١٥٧ )
٦ - محو، مشغول، مصروف۔
 رکھ تن کو مجاہدہ میں نت چور اور من کو مشاہدہ میں معمور      ( ١٦٦٣ء، میراں جی حق نما، رسالہ نورنین، ٤٢ )