چور بازار

( چور بازار )
{ چور (و مجہول) + با + زار }

تفصیلات


سنسکرت کے لفظ 'چورہ' سے ماخوذ 'چور' کے ساتھ فارسی اسم 'بازار' لگانے سے مرکب 'چور بازار' بنا اردو میں بطور اسم مستعمل ہے ١٨٩٠ء کو "خدا دوست (ظریف کے ڈرامے)" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - وہ بازار جہاں چوری کا مال خریدا اور بیچا جائے یا وہ بازار جہاں چیز مقررہ نرخ سے زیادہ قیمت پر چوری سے فروخت کی جاتی ہیں؛ وہ جگہ جہاں غیر ملکی سامان کسٹم دیوٹی بچا کر یا غیر قانونی درآمد سے حاصل کر کے بیچا جائے۔
"چور بازار سے حاصل کیا تو شاید رتن پور کے سارے کھیتوں اور دس بیس کتابوں کی ساری آمدنیوں سے ہاتھ دھونا پڑے گا"      ( ١٩٥٤ء، شاید کہ بہار آئی، ١٢٣ )
٢ - وہ جگہ جہاں خفیہ طور پر کوئی ناجائز کام ہوتا ہو؛ چوری چھپے لا کر مال بیچنے کی جگہ۔
"جانے نور جہاں کہاں چلی گئی تھی کسی مر مریں محل میں یا کسی چور بازار کی کوٹھی میں"      ( ١٩٧٧ء، ابراہیم جلیس، الٹی قبر، ١٩٠ )