چونچ

( چونچ )
{ چونچ (و مجہول) (ن مغنونہ) }
( سنسکرت )

تفصیلات


چنچہ  چونچ

سنسکرت زبان کے لفظ 'چنچہ' سے ماخوذ 'چونچ' ہے اردو میں بطور اسم مستعمل ہے سب سے پہلے ١٦٤٩ء کو "خاور نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : چونْچیں [چوں (و مجہول) + چیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : چونْچوں [چوں (و مجہول) + چوں (و مجہول)]
١ - پرندے کا منہ، منقار۔
"اس جگہ پر وہ جفت اور زنبور داخل کی جائیں جن کے اطراف اس چڑیا کی چونچ کی طرح ہوتے ہیں جس کو کرمہ کہتے ہیں"      ( ١٩٤٧ء، جراحیات زہراوی، ٦٨ )
٢ - انسان کا منہ وہاں؛ زبان، جیبھ (بطور طنز و تحقیر)۔
 خورد ونوش ان میں ہے افزوں تو اسی قوت سے لوگ سچ کہتے ہیں چونچ انکی ہے چنگال ان کا      ( ١٩٢١ء، اکبر، کلیات، ٩:٤ )
٣ - نوک، سرا۔
"شیشے کی ایک ٹیوب جو دونوں طرف کھلی ہوتی ہے، سیدھی کھڑی کی جاتی ہے نچلی سرے کی چونچ نکلی ہوتی ہے"      ( ١٩٦٧ء، آواز، ٤٧٣ )
٤ - چرب باتوں کی طراری۔ (نوراللغات)
٥ - کھراد کا نکیلا آہنی کیلا جو ایک مڈّی میں تیر بند جڑا ہوا کاری گر کے بائیں ہاتھ کی طرف رہتا ہے۔ (اصطلاحات پیشہ وراں، 173:1)
٦ - جھڑپ، تنازع، لفظی۔
"دو دو چونچیں ہو گئیں"      ( ١٨٩٥ء، فرہنگ آصفیہ، ١٣١:٢ )
٧ - بے وقوف، احمق۔
"آپ بھی نرے چونچ ہی رہے کوئی جنٹلمین سگار سگرٹ آدھے سے آگے بھی پیتا ہے۔"      ( ١٩١٤ء، راج دلاری، ٣٠ )
٨ - ایک بوٹی جو دواؤں میں استعمال ہوتی ہے۔
"متویلگ: ایک درخت ہے . اس کی دو قسمیں ہیں خرد کلاں، بعض اس کو بوٹی خیال کرتے ہیں جو چونچ کے نام سے مشہور ہے کیونکہ چہرے کی شکل کے بہت مطابق ہے"      ( ١٩٢٦ء، خزائن الادویہ، ٢٢٠:٦ )
  • مِنقَار
  • کَلَپ
  • نَول