چوکنا

( چُوکْنا )
{ چُوک + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


چیت+کر  چُوکْنا

سنسکرت زبان کے لفظ 'چیت+کر' سے ماخوذ 'چوکنا' بنا۔ اردو میں بطور مصدر مستعمل ہے۔ ١٥٩١ء کو "وصیت الہادی (ق)" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - غلطی کرنا، خطا کرنا، قصور کرنا؛ نشانہ اوکنا؛ فریب میں آنا۔
 ان کا نہ کبھی کوئی نشانہ چوکا شیطان ہے ان کے آگے ننگا بھوکا      ( ١٩٤٧ء، سنبل و سلاسل، ٢٥٩ )
٢ - بھولنا۔
 خدا کے فضل یہ تھا اعتماد کیا غم تھا اگر میں چوک بھی جاتا وہ پاسباں ہوتا      ( ١٩٣٢ء، بے نظیر، کلام بے نظیر، ١٢ )
٣ - بھٹکنا۔
"قدم ایسا سیدھا پڑتا ہے کہ راستہ نہیں چوکتا"      ( ١٩٠٩ء، صلائے عام، اپریل،٦ )
٤ - باز آنا، باز رہنا۔
"یعنی ہاتھ کی صفائی سے بھی نہیں چوکتے اور ہارے پر برہم بھی بہت ہوتے ہیں"      ( ١٩٨١ء، آسمان کیسے کیسے،٢٢٩ )
٥ - پس و پیش کرنا، موقع کھو دینا۔
"چوکو نہیں آنکھ بند کرکے بیٹی دے دو"      ( ١٩٣٣ء، فراق دہلوی، لال قلعے کی ایک جھلک، ٤ )