چوسنا

( چُوسْنا )
{ چُوس + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


چوش  چُوس  چُوسْنا

سنسکرت زبان کے لفظ 'چوش' سے ماخوذ 'چوس' کے ساتھ 'نا' لاحقہ مصدر لگانے سے 'چوسنا' بنا۔ اردو میں بطور فعل مستعمل ہے۔ ١٧٧١ء کو "ہشت بہشت" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل متعدی
١ - کسی چیز کو منہ میں لے کر دونوں ہونٹوں یا زبان اور تالوں سے اس طرح دبانا کہ اسے دانت نہ لگے اور اس چیز کے مزے یا اثر یا اجزا کو حلق میں اتارنا؛ چچوڑنا۔
 سرچشمہ فصاحت کا گھٹی میں ملا جس کو چوسی ہے زبان جس نے دن رات پیمبر کی      ( ١٩١١ء، صحیفۂ ولا، ١٣١ )
٢ - آہستہ آہستہ پینا، پی جانا، چٹ کر جانا، ختم کرنا، ہڑپ کرلینا۔
"مدتوں کا جمع کیا ہوا شہد وہ لمحہ بھر میں چوس جاتا ہے"      ( ١٩٣٢ء، عالم حیوانی، ٤٧٩ )
٣ - نچوڑنا، عرق نکالنا؛ ضعیف و کمزور کر دینا۔
ہجوم شوق کی بے تابیوں نے اس قدر چوسا کہ دم رک رک گیا زخموں کے منہ تیغ قاتل کا      ( ١٨٦٥ء، نسیم دہلوی، دیوان، ١١٢ )
٤ - چاٹنا۔
"یہ لوگ مطالعے کے بڑے دھنی تھے خاطر خواہ فرصتیں ملتی تھیں جس کتاب کو لے کر بیٹھے اس کی سیاہی تک چوس گئے۔"      ( ١٩٠٣ء، لکچروں کا مجموعہ، ٤١٨:٢ )
٥ - جذب کرنا، کسی چیز کو جذب کر لینا۔
"دوسرے لفظوں میں پٹرول اور ہوا کے مرکب کو چوسنے کی قوت یا عمل بھی نہایت کم ہو گا"      ( ١٩٤٩ء، موٹر انجینئر، ١٦٥ )
٦ - کسی چیز کو سانس یا ہوا کے زور سے کھینچنا۔
"تمام پمپوں کی بنیاد چوسنے کے عمل پر ہے"      ( ١٩٢١ء، سکون، سیالات، ٢٥١ )