چوپٹ

( چَوپَٹ )
{ چَو (و لین) + پَٹ }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان کے لفظ 'چتر' سے ماخوذ 'چو' کے ساتھ سنسکرت زبان کا اسم 'پٹ' لگانے سے اردو میں 'چوپٹ' بطور صفت مستعمل ہے۔ گاہے متعلق فعل بھی مستعمل ہے۔ ١٦٥٧ء کو "گلشن عشق" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - ویران، برباد، تباہ، ٹھپ۔
"نئی دہلی چوپٹ تھی مگر اصلی دلی میں وہی چہل پہل تھی۔"      ( ١٩٤٧ء، فرحت، مضامین، ٤٥:٣ )
٢ - فراموش، بھلایا ہوا۔
"پڑھا لکھا سب چوپٹ، جیسے کورے تھے ویسے ہی کورے کے کورے رہے۔"      ( ١٩٢٤ء، انشائے بشیر، ٨ )
٣ - بیوقوف، بے عقل؛ کورا، جاہل مطلق۔
"نائی اپنے دل میں کہنے لگا . یہ گونگا ہے، بہرا ہے اور بالکل چوپٹ ہے کہ اس نے کوئی جواب بھی میری بات کا نہیں دیا۔"      ( ١٨٩١ء، قصۂ حاجی بابا اصفہانی، ٣٤٤ )
٤ - اوندھا، الٹا، چاروں شانے چت۔
"خدا ہی نے کہا ہے کہ چوپٹ کرو گے۔"      ( ١٨٨٠ء ربط ضبط، ٤٣:١ )
٥ - کھلا ہوا، فراخ، کشادہ؛ چاروں دروازے کھلے ہوئے۔ (نوراللغات)
متعلق فعل
١ - پوری طرح، چاروں طرف سے۔
"نگار خانوں نے سعادت کے لیے اپنے دروازے چوپٹ کھول دیئے۔"      ( ١٩٨٤ء، کیا قافلہ جاتا ہے، ١٤٩ )