رچنا

( رَچْنا )
{ رَچ + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


رچ  رَچْنا

سنسکرت زبان کے لفظ رچ کے ساتھ 'نا' بطور لاحقہ مصدر اردو میں اصل مفہوم کے ساتھ بطور فعل نیز بطور اسم بھی مستعمل ہے سب سے پہلے ١٦١١ء میں قلی قطب شاہ کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - سما جانا، نظر آنا، جسم و جان میں اتر جانا۔
"یہ کوئی کٹر قسم کے مولوی ہیں تشدد میں بسے ہوئے اور تشقف میں رچے ہوئے۔"      ( ١٩٤٥ء، حکیم الامت، ٢ )
٢ - جزو بن جانا (دل و دماغ یا بدن وغیرہ کا)۔
"اہل بیتِ رسولۖ کا احسانِ عظیم ہے کہ ان کی عصمت میں رچی ہوئی اور . نے ہماری یہ مشکل آسان کر دی۔"      ( ١٩٧٠ء، دیباچہ دعائے کمیل، ٤ )
٣ - رنگ، بو، ذائقہ یا دیگر خصوصیات کو قبول کر لینا، گھل مل جانا۔
"سبحان . دو کرارے دیسی پان . چونا کم اور کتھا زیادہ لگا کے رچنے کے لیے رکھ دیتا۔"      ( ١٩٨٢ء، زندگی، نقاب، چہرے، ٢٣٤ )
٤ - پوری طرح متاثر ہونا، نظریہ یا عقیدہ میں رنگ جانا۔
"شعور وجود کے تابع ہے جوں جوں وجود ترقی کرتا اور سدھرتا چلا جائے گا شعور بھی اسی نسبت سے رچتا . اور مکمل ہوتا جائے گا۔"      ( ١٩٧٠ء، برش اور قلم، ٢٧٠ )
٥ - کسی بات کا ضمیر یا عادت میں شامل ہو جانا، بلا ارادہ ظہور میں آ جانا، متداول ہونا۔
 دامانِ ابرتیرہ سے گوہر سمیٹ لوں قوس قزح کا رنگ عروسی رچاؤں میں      ( ١٩٤٧ء، میں ساز ڈھونڈتی رہی، ٣٩ )
٦ - راسخ اور نمایاں ہونا۔
"غالب اپنے سبک کے اکابر شعرا کی صف میں بخوبی رچ جاتے ہیں۔"      ( ١٩٦٩ء، صحیفہ لاہور، جنوری )
٧ - ایک چیز کی بو باس اور خصوصیت کا دوسری چیز میں سرایت کرنا۔
 عادت میں یہ رنگ اگر رچے گا شرم و ذلت سے تو بچے گا      ( ١٩٢٨ء، تنظیم الحیات، ٥١ )
٨ - [ کبوتر بازی ]  کبوتر کا خانے میں جانا، کسی نئے کبوتر کا گھر کے کبوتروں میں مل جانا وحشت جاتی رہنا، ہلنا، مانوس ہونا۔
"صدی کا کبوتر جب آیا کرے تو فوراً پکڑنے کی کوشش نہ کرو جب کبوتروں میں رچ جائے تو دانہ ڈال کے پکڑ لیا کرو۔"      ( ١٩٦٨ء، مہذب اللغات، ٤٩٣:٥ )
٩ - ڈول ڈالنا، خاکہ یا منصوبہ بنانا۔ (فرہنگِ آصفیہ، 352:3)
١٠ - وسیع ہونا، بیاہ کا سامان مہیا ہونا، شادی کا پھیلاوا پھیلنا، دھوم دھام ہونا۔
"شہر میں داخل ہوا تو ایک شادی رچ رہی تھی۔"      ( ١٩٢٩ء، آمنہ کا لال، ٦٥ )
١١ - کسی خاص لباس یا بھیس میں نظر آنا، روپ بھرنا۔
"کمال نے کہا۔ چمپا باجی بس سوانگ رچتی رہیے۔"      ( ١٩٥٦ء، آگ کا دریا، ٤٦٧ )
١٢ - مچانا، اٹھانا۔
 منج اپرال طوفاں رچ بے گناہ کیا ہے مرے حال کو یوں تباہ      ( ١٦٣٩ء، طوطی نامہ، غواصی، ٢٥٧ )
١٣ - تالیف یا تصنیف کرنا، لکھنا، تحریر کرنا۔
"یہ ہم نے رچا ہے کیا تمھاری طرح رٹنت ودیا جتنا کہو اتنا رچ دیں۔"      ( ١٩٣٩ء، پریم چند، خاکِ پروانہ، ٩٦ )
١٤ - بنانا، خلق کرنا، سجنا، ترتیب دینا، مرتب کرنا۔
 صاف تر سفرہ بچھائے سامنے خوانچے سب طرح کے اس پر رچے      ( ١٧٩١ء، ریاض العارفین، ٦٤ )
١٥ - ہاتھ پاؤں میں مہندی کا خوب شوخ رنگ چڑھنا، مہندی کا ہاتھ پاؤں میں رنگ لانا۔
"جب کسی حسین و جمیل دوشیزہ کے ہاتھوں میں مہندی لگائی جاتی ہے تو خوب رچتی ہے۔"      ( ١٩٦٨ء، مہذب اللغات، ٤٩٣:٥ )
١٦ - [ کنایۃ ]  آلودہ ہونا۔
 خون شہیدِ ناز سے منہ لال لال ہے ہاتھوں میں خوب رنگِ حنا ہے رچا ہوا      ( ١٨٦١ء، کلیات اختر، ١٠٠ )
١٧ - جی بھرنا، سیر ہونا۔
 مر گیا جو اسے کہتے ہیں ہوا آج وصال جی رچا زیست سے اس ہجر میں مر دیکھیں گے      ( ١٨١٨ء، اظفری، د، ١٨ )
١٨ - پرسکون ہونا، سکون نصیب ہونا۔
 نہیں رچتا کہیں فراق میں دل سخت ناچار ہوں طبیعت سے      ( ١٨٦٦ء، فیض، د، ٣٥٧ )
١٩ - واقع ہونا، جاگزیں ہونا۔
"اگر یہاں زچہ خانہ رچتا تو ہیجڑے کرتے ٹوپی کی تیاری کرتے۔"      ( ١٩٢٤ء، اودھ پنچ لکھنؤ، ٩، ٩:١٢ )
اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : رَچْنائیں [رَچ + نا + ایں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : رَچْناؤں [رَچ + نا + اوں (و مجہول)]
١ - کاریگری، صنعت، حسن کاری۔
 کوئی کہتا ہے پر کرتی کا یہ سب کھیل ہوتا ہے سرِشٹی کی ہے رچنا جب پُرش سے میل ہوتا ہے      ( ١٩٣٦ء، حرفِ ناتمام، ٧ )
٢ - مشکل ہونے یا کئے جانے کی کیفیت(بیشتر بناوٹی طور پر)
"یہ کیا رچنا رچی ہے آخر اور یہ کیا کھیل ہے۔"      ( ١٩٢٤ء، محمدۖ کی سرکار میں ایک سکھ کا نذرانہ، ٣٤ )
٣ - جگہ، مقام، ٹھکانہ۔
 ہر نظر باز صبد شہوت ہے ہے یہ سنسار موہ کی رچنا      ( ١٩٦٣ء، کلکِ موج، ٢٢٥ )
  • making
  • forming
  • fabricating
  • creating
  • composing;  make
  • form
  • constitution
  • nature;  arrangement
  • disposition
  • management
  • performance;  fabrication
  • created thing
  • workmanship
  • work
  • composition
  • literary production