پھاندنا

( پھانْدْنا )
{ پھانْد (ن مغنونہ) + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


سپندیات  پھانْدْنا

سنسکرت میں لفظ 'سپندیات' سے ماخوذ 'پھاند' کے ساتھ اردو قاعدے کے تحت علامتِ مصدر 'نا' لگنے سے 'پھاندنا' بنا۔ اردو میں بطور مصدر استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٧٠٨ء کو "گلشنِ ہند" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - در آنا، (اوپر سے نیچے کی طرف) جست کرنا یا لگانا۔
"میں ایک بالاخانہ پر چڑھا ہر طرف سیر کی میں نے دیکھا کہ اگر کوئی پھاندنے کی کوشش کرے تو ہر جگہ سے پھاند سکتا ہے۔"      ( ١٩٢٠ء، روحِ ادب، ١٦٤ )
٢ - اچھلنا کودنا۔
 جھاگ اڑاتی پھاندتی اڑتی ہوئی کپکپاتی لوٹتی مڑتی ہوئی      ( ١٩٣٢ء، سیف و سبو، ٨١ )
فعل متعدی
١ - پھلانگنا، ایک ڈگ میں طے کرنا، (اچھل کر) ایک طرف سے دوسری طرف جانا۔
 پہنچے پھاند کے سات سمندر تحت میں ان کے بیسوں بندر      ( ١٨٨٧ء، کلیاتِ اکبر، ٢٦٨:١ )
٢ - باندھا (قدیم)۔
 کس نظر ناز نے اس باز کو بخشی پرواز سینکڑوں مرغ ہوا پھاند کے پر بیٹھ گئے      ( ١٧٠٨ء، فقیر (گلشنِ ہند، ١٢٩) )
٣ - [ ]  نرحیوان کا مادہ حیوان سے جفتی کھانا۔ (فرہنگِ آصفیہ)
٤ - پھندے میں ڈالنا، پھانسنا۔
٥ - قید میں ڈالنا، جال میں پھانسنا۔