چھلنا

( چِھلْنا )
{ چِھل + نا }
( مقامی )

تفصیلات


مقامی زبان کا لفظ 'چھول' سے 'چھیل' کے ساتھ 'نا' بطور لاحقہ مصدر لگانے 'چھیلنا' کا لازم 'چھلنا' بنا۔ اردو میں بطور مصدر مستعمل ہے۔ ١٨٣٢ء کو "دیوان رند" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - خراش آجانا، چینٹ آجانا؛ کسی چیز کا پوست اتر جانا، کھال ادھڑ جانا۔
"میرے ماتھے نے اس زور کی رگڑ کھائی کہ پیشانی کی کھال چھلتی چلی گئی"      ( ١٩٧٣ء، جہاں دانش، ٢٧٠ )
٢ - ضرب سے کسی پھوڑے یا پھنسی کا کھرنڈ اتر جانا۔
 نہ کہہ ساقی بہار آنے کے دن ہیں جگر کے داغ چھل جانے دے دن ہیں      ( ١٩٠٥ء، کفتار بے خود، ٨ )