چھلکنا

( چَھلَکْنا )
{ چَھَلک + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


اد+شل+کر  چَھلَکْنا

سنسکرت زبان کے لفظ 'اد+شل+کر' سے ماخوذ 'چھلکنا' بنا۔ اردو میں بطور مصدر مستعمل ہے۔ ١٩٧٥ء کو "دیوان قائم" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - کسی سیال چیز کا لبالب ہو کر گرنا یا ٹپکنا، اہل کر باہر نکلنا، لبریز ہو کر بہنا۔
 اے گل رخو نہ چھیڑنا دامن سحاب کا دیکھو چھلک رہا ہے کٹورا گلاب کا      ( ١٨٥٤ء، ذوق، دیوان، ٩٣ )
٢ - امنڈنا، نمایاں ہونا۔
"چھپا ہوا.پیار اس کے جسم سے چھلک پڑا"      ( ١٩٧٧ء، ابراہیم جلیس، الٹی قبر، ٢٠١ )
٣ - ضبط سے باہر ہو جانا، امنڈنا، بے قابو ہو جانا۔
"ان کا دل درد سے لبریز تھا، ذرا سی ٹیس کے چھلک اٹھتا تھا"      ( ١٩٣٥ء، چند ہم عصر، ١٨١ )
٤ - تھوڑی سی جاہ وحشمت پر غرور کرنا، نخوت و غرور کے کلمات زبان پر لانا۔ (نوراللغات)
فعل متعدی
١ - [ کہار ]  کسی قدر خالی ظرف کو بھر کر پورا کر دینا، مثلاً ان کا کلمہ کسی قدر خالی رہ جائے تو کہیں گے اسے چھلک دو، اگر زیادہ بھرا ہوا ہو تو وہاں غرض ہو گی کچھ خالی کردو۔ (فرہنگ آصفیہ)