ردیف

( رَدِیْف )
{ رَدِیْف }
( عربی )

تفصیلات


ردف  رَدِیْف

عربی میں ثلاثی مجرد کے باب سے اسم مشتق ہے۔ اردو میں اصل مفہوم اور ساخت کے ساتھ داخل ہوا۔ سب سے پہلے ١٦٥٧ء میں "گلشن عشق" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث )
١ - وہ لفظ یا الفاظ جو ابیات یا غزل اور قصیدے کے اشعار میں قافیے کے بعد بار بار آئیں۔
"کچھ نئے الفاظ کچھ نئی ردیفیں اور چونکا دینے والے احساسات کے اظہار ہی کو شائد فن کی معراج سمجھ رہے ہیں۔"      ( ١٩٧٠ء، برشِ قلم، ٢٤ )
٢ - حروفِ تہجی کے اعتبار سے غزلوں یا افاظ کی ترتیب۔
 جلد اے جان کہیں جیم کی اب آپ ردیف حسن کا شعر میں اور عیب کا ہے دھیان عبث      ( ١٨٧٩ء، جان صاحب، د، ٢٣٩:٢ )
٣ - پیچھے کی فوج۔
"راہبوں کی ایک بے شمار فوج تین صفوں میں آراستہ ہے اور یہ صفیں ایک نہایت وسیع نصف داسرے کی شکل رکھتی ہیں۔ سب سے آگے کی ردیف میں نہایت سن رسیدہ مسیحی درویش ہیں۔"      ( ١٩٤٣ء، تائیس (ترجمہ)، ٣٩٧ )
٤ - گھوڑے، اونٹ یا کسی اور سواری پر پیچھے بیٹھنے والا شخص۔
"جبرئیل آگے بیٹھے اور انہوں نے حضورۖ کو اپنے پیچھے ردیف کے طور پر بٹھا لیا۔"      ( ١٩٧٨ء، سیرتِ سرور دو عالمۖ، ٦٥٢:٢ )
٥ - ایک ستارہ جو صورت کوکبہ عقاب کے قریب ہے؛ ایک ستارا جو اس وقت چڑھے جب اس کا مقابل غروب ہو جائے۔" جامع اللغات
٦ - [ بطور صفت ]  ساتھی، رفیق، ہمنوا، ندیم۔
"اپنی ردیفِ زندگی کو زیادہ عرصے تک خوش نہیں رکھ سکتا۔"      ( ١٩١٤ء، فلسفہ جذبات، ٥ )
  • one who rides behind another (on the same horse);  the technical name given to one of the letters of prolongation a
  • C or u
  • when it immediately precedes the (rawi
  • or) essential part of the rhyme;  one or more independent words placed after the rhyme at the end of hemistichs or verses
  • hypermeter