چھتا

( چَھتّا )
{ چَھت + تا }
( سنسکرت )

تفصیلات


چھترکہ  چَھتّا

سنسکرت زبان کے لفظ 'چھترکہ' سے ماخوذ 'چھتا' بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٨٠٣ء کو "رانی کیتکی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : چَھتّے [چَھت + تے]
جمع   : چَھتّے [چَھت + تے]
جمع غیر ندائی   : چھتوں [چھت + توں (و مجہول)]
١ - چھت سے پٹا ہوا راستہ، گلی یا بازار جس پر چھت بنی ہوئی ہو؛ مکان کی ڈیوڑھی جس پر صرف چھت ہو پاکھے نہ ہوں۔"
"حوض کے اوپر چھتا پاٹ کر مسجد کا درجہ بنایا۔"      ( ١٨٦٩ء، مسافران لندن، ٥٠ )
٢ - بھڑوں (زنبوروں) یا شہد کی مکھیوں کے رہنے کا گھر، محال۔
"شہد کی مکھی کا گھر یا چھتا ایک خاص صنعت یا کاریگری کا نمونہ ہوتا ہے۔"      ( ١٩٥٤ء، حیوانات قرآنی، ١٥١ )
٣ - گھاس کی جڑوں کا گھنا پن، درخت کے پتوں پھلوں یا پھولوں کا گچھا۔
"جتنے جھاڑ جھنکاڑوں میں پتے اور پتوں کے بندھے چھتے تھے اون پر روپہلے سنہرے ڈانک گوند لگا لگا کے چپکا دیے۔"      ( ١٨٠٣ء، رانی کیتکی، ٤٢ )
٤ - کسی چیز کے اکٹھا یا یک جا ہونے کی حالت، گچھا۔
"اس میں پھر کر دھوپ میں ایک چادر پر گول گول چھتے ڈالئے یہ گرم گرم سانچے میں سے اچھا نکلتا ہے۔"      ( ١٩٤٤ء، ناشتہ، ٢٦ )
٥ - کسی چیز کی کثرت وہ جگہ جہاں کوئی چیز بکثرت ہو۔
"فساد کے چھتوں پر فتنہ کی بھڑیں امڈی رہتی ہیں۔"      ( ١٨٨٣ء، دربار اکبری، ٤٢٠ )
٦ - گروہ، انبوہ، ٹھٹ، داد یا پھنسیاں جو پاس پاس ایک ہی جگہ گچھا بنا لیں۔ (فرہنگ آصفیہ)
٧ - لٹکے ہوئے بال۔ (سندھی نامہ، 234)
  • جُھنڈ