چھپڑ

( چَھپَّڑ )
{ چَھپ + پَڑ }
( سنسکرت )

تفصیلات


چَھپَّر  چَھپَّڑ

سنسکرت زبان کے لفظ'چھتورہ' سے ماخوذ 'چھپر' کا ایک تلفظ 'چھپڑ' بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٧٩٨ء کو "دیوان سوز" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : چَھپَّڑوں [چَھپ + پَڑوں (و مجہول)]
١ - تالاب، جوہڑ۔
"کبوتر اور مینڈک کا تماشا وہ جنگل اور دریا یا چھپڑ پر جا کر کرتے ہیں۔"      ( ١٩٠٨ء، اساس اخلاق، ٦٢٥ )
٢ - وہ برساتی پانی جو اکثر گڑھوں میں بھر جاتا ہے اور ان میں سنگھاڑے کنول بو دیتے ہیں۔ (جامع اللغات)
٣ - چھپر     
 کر آج تو یہ حکم کہ چھپڑوں کو چھڑک سوئین دل سوختہ اس رات کوئی آہ کرے گا     رجوع کریں:  چھپر ( ١٧٩٨ء، سوز، دیوان، ٢٣ )