فارسی زبان میں اسم 'زور' کے ساتھ فارسی مصدر 'داشتن' سے مشتق صیغۂ امر 'دار' لگانے سے مرکب 'زوردار' بنا۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم صفت مستعمل ہے۔ ١٦٤٩ء کو "اردو کی چوتھی کتاب) میں مستعمل ملتا ہے۔
"سیمنٹ اور ریت کا آمیزہ مروجہ آمیزہ کی بہ نسبت زیادہ زوردار استعمال کیا جاتا ہے۔"
( ١٩٤٨ء، رسالہ رڑکی چنائی، ٧٩ )
٢ - پوری طاقت کے ساتھ، بھرپور۔
"باؤجی کے سامنے گالی دیتا ہے . اس نے ڈھینگر کے منہ پر ایک زور دار تھپڑ رسید کیا۔"
( ١٩٨٣ء، خانہ بدوش، ١٣٨ )
٣ - اپنی کسی کیفیت یا صفت کے اعتبار سے بہت زیادہ قوت و اثر رکھنے والا یا کسی صفت یا کیفیت سے بہت شدت کے ساتھ انصاف رکھنے والا۔
"نیاز صاحب سچ مچ زوردار ہستی کے مالک ہیں اور ان میں وہ قابلیت ہے جس سے دوسرے کے دل میں اعتماد پیدا ہو جائے۔"
( ١٩٨٦ء، نیاز فتح پوری شخصیت اور فکر و فن، ٤٧ )
٤ - تند و تیز۔
"پرسوں زبردست آندھی کے بعد زوردار بارش ہوئی۔"
( ١٩٦٦ء، جنگ، کراچی، ٣٠ | ٦:١٨٠ )
٥ - پرجوش۔
"غلط فہمیوں کا ازالہ جس زوردار طور پر . کیا ہے اس سے اہل علم آگاہ ہیں۔"
( ١٩٨٥ء، تفہیم اقبال، ١٠ )
٦ - عمدہ نظم یا نثر، جوشیلی اور مدلل تقریر، وہ پتنگ جس کے اڑنے میں ڈور خوب تنی رہے اور جھول نہ رہے۔ (مہذب اللغات)