پھڑپھڑانا

( پَھڑْپَھڑانا )
{ پَھڑ + پَھڑا + نا }
( ہندی )

تفصیلات


پَھڑْپَھڑ  پَھڑْپَھڑانا

اسم صوت'پھڑپھڑ' کے ساتھ 'ا' بڑھا کر اردو علامتِ مصدر 'نا' ملنے سے 'پھڑپھڑانا' بنا۔ اردو میں بطور مصدر استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٦٥ء کو "پھول بن" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - پھڑپھڑ کرنا، (بازووں کو) پھٹ پھٹانا۔
"رشتے میں باز نے پھڑپھڑانا اور مجھے پروں سے مارنا شروع کیا۔"      ( ١٩٢٥ء، حکایات لطیفہ، ١١٠:١ )
٢ - (ہوا سے) ہلنا، حرکت کرنا۔
"ممدا پھڑپھڑاتے پردے اتار رہا تھا اور ڈراینگ روم کی بخاری میں آگ بھر رہا تھا۔"      ( ١٩٤٦ء، آگ، ١٩٥ )
٣ - تڑپنا، ہاتھ پانو ہلانا۔
"قریب تھا کہ غم کے مارے پھڑپھڑا کے دم نکل جائے۔"    ( ١٩٥٤ء، اپنی موج میں، ١٧ )
٤ - بے قرار ہونا، بے چین ہونا۔
"پہلے بھی کبھی مامتا پھڑپھڑائی تھی۔"    ( ١٩٢٥ء، اودھ پنچ، لکھنؤ، ١، ٩:١١ )
٥ - عالمِ نزع میں ہونا۔
"اس کی روح اپنے خول میں سر پیٹنے اور پھڑپھڑانے لگی۔"    ( ١٩١٢ء، سی پارۂ دل، ١٢٦:١ )
فعل متعدی
١ - ہلانا، ہوا میں حرکت دینا۔
"بڑے زور سے پھڑپھڑا کر چادر جھاڑی۔"      ( ١٩٧٣ء، اوراق، سرگودھا، مارچ، اپریل، ٣٩٠ )