رقبہ

( رَقْبَہ )
{ رَق + بَہ }
( عربی )

تفصیلات


رقب  رَقْبَہ

عربی میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے اردو میں اصل مفہوم اور ساخت کے ساتھ داخل ہوا۔ سب سے پہلے ١٨٩٦ء میں "فلورا فلورنڈا" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : رَقْبے [رَق + بے]
جمع   : رَقْبے [رَق + بے]
جمع استثنائی   : رَقْبات [رَق + بات رقبہ جات]
جمع غیر ندائی   : رَقْبوں [رَق + بوں (و مجہول)]
١ - زمین، اراضی (خاص کر دیہی)۔
"کم وقت میں زیادہ رقبہ بویا جاسکتا ہے"      ( ١٩٧٧ء، معاشی جغرافیہ پاکستان، ٩٨ )
٢ - بولی یا زبان کے اعتبار سے علاقوں کی تقسیم۔
"ملک کے وہ رقبے جو یا اعتبارِ زبان قائم ہیں ان کا تحفظ ہو گا"      ( ١٩٧٥ء، متحدہ قومیت اور اسلام، ٧٠ )
٣ - سطح کی وہ مقدار جو اسکے عرض و طول کی ضرب سے حاصل ہو، خصوصاً اراضی کی مقدار، علاقہ۔
"حضرت عمر فاروق مسلمانوں کے امیر تھے. ہندوستان اور پاکستان کے مجموعی رقبے سے بھی بڑی مملکت تھی"      ( ١٩٨٥ء، روشنی، ٨٤ )
  • Enclosed space or area
  • enclosure;  grounds pertaining to a village or district
  • environs;  esplanade;  area
  • superficial contents