تیر

( تِیر )
{ تِیر }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے اسم جامد ہے اردو میں ساخت اور معنی کے لحاظ سے بعنیہ داخل ہوا سب سے پہلے ١٤٢١ء کو "شکار نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم آلہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : تِیروں [تی + روں (و مجہول)]
١ - نیزے کی شکل سے مشابہ ایک بہت چھوٹا اور پتلا ہتھیار جو کمان میں رکھ کر پھینکا جاتا ہے، خدنگ، بان۔
"تیروں کی بہت سی اقسام ہوتی ہیں اور ان اقسام کے لحاظ سے وہ جسم کے مختلف حصوں میں ہوتے ہیں"      ( ١٩٤٧ء، جراحیات زہرادی، ١٧٨ )
٢ - [ مجازا ]  سخت ناگوار اور تکلیف دہ، تیر کے زخم کی طرح تکلیف دینے والا۔
"وہی سید کاظم جس کو ظہیر کا کہنا ایک تیر معلوم ہوا تھا اب خود ہی دوسرے نکاح کے متعلق غور کرنے لگا"      ( ١٨٩٥ء، حیات صالحہ، ١٠٥ )
٣ - وہ فاصلہ جہاں تک تیر کی مار ہو، ایک تیر کا فاصلہ۔
"دور سے دیکھتے ہی کہا کہ تو صاحب کمال کو لیے آتا ہے کہ جو خاقانی سے کئی تیر آگے بڑھ کر قدم مارے گا"      ( ١٩١٠ء، آزاد (محمد حسین)، نگارستان فارس، ٨٢ )
٤ - کھوا، کلہ۔
"ایک دانہ خشخاش . جبکہ زمین میں اس کو ڈالا اور سبز ہوا ایک دانہ سے قریب بیس تیر کے نکلتے ہیں اور . ہر تیر ایک قبہ ہوتا ہے"      ( ١٨٣٨ء، بستان حکمت، ٤١٦ )
٥ - [ بندوقچی ]  بندوق کی نال، ایک نالی بندوق کی نال جو کندے سے علیحدہ ہو۔
"چھوٹے تیر کی بندوق دھکا کم دیتی ہے"      ( ١٩٤٤ء، اصطلاحات پیشہ وراں، ٨٤:٨ )
٦ - عطارد، دبیر فلک۔
"یہ ہیکل "پیکر ستانِ شیداں" کہلاتے تھے تفصیل یہ ہے: (تیر) عطارد، بدھ، میر منشی فلک، یا دبیر فکل (دیوان جی) مرکری۔      ( ١٨٩٧ء، العبراکمہ، ٤٧ )
٧ - شکاری نسل کا کتا۔
ہمارے ملک کے کتے مثلاً رامپوری، پشاوری، تیر . اور تمام وہ نسلیں جو دوڑ کر اپنا شکار پکڑتی ہیں محض بیکار. ہیں"      ( ١٩٣٢ء، قطب یار جنگ، شکار، ٣٠٠:٢ )
٨ - شہتیر، مستول، ستون، کڑی۔
"خشک پتوں کی لکٹری موٹون میں زیادہ استعمال کی جاتی ہے. مکانوں کی چھت میں تیروں اور کڑیوں کے لیے اس سے کام لیتے ہیں"      ( ١٩٠٧ء، فلاحت النخل، ٢١٩ )
  • shore
  • bank;  margin
  • brink
  • edge;  the fourth solar month of the Persian year (corresponding to the Hindu Sawan);  an arrow;  a beam
  • a mast