چھننا

( چَھنْنا )
{ چَھن + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


سیند  چھاننا  چَھنْنا

سنسکرت زبان کے لفظ 'سیند' سے ماخوذ 'چھان' کے ساتھ 'نا' بطور لاحقۂ مصدر لگانے سے 'چھاننا' کا لازم 'چھننا' بنا۔ اردو میں بطور مصدر مستعمل ہے۔ ١٧١٨ء کو "دیوان آبرو" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - چھاننا کا لازم، چھید ہو جانا، چھلنی ہو جانا۔
 جگر غربال اس کا بن گیا تھا زبس تیر بلا سے چھن گیا تھا      ( ١٨٠٩ء، جرات، کلیات، ٤٠١ )
٢ - صاف ہونا، نتھر کر آنا۔
 نرم آنچل سے یہ چھنتی خوشبو میرے ہر خواب میں چھا گئی ہے      ( ١٩٨٢ء، تارگربیاں، ١١١ )
٣ - کسی چیز کا آر پار نظر آنا؛ جھلکنا۔
"پاؤں میں نصب ساق تک پاتا بہ اس قدر پتلا اب پہنا جاتا ہے کہ رنگت باہر چھن کر نمایاں ہو"      ( ١٩٢٠ء، برید فرنگ، ٢٢ )
٤ - ٹھننا، ان بن ہونا، بحث و تکرار ہونا، دشمنی ہونا، لڑائی ہونا۔
"پولیس نہ آ جاتی تو غم و غصے میں خوب چھنتی"      ( ١٩٢٥ء، اودھ پنچ، لکھنو، ١٠، ١٠:٢٩ )
٥ - دوستی مستحکم ہونا، آپس میں تعلقات بڑھنا، گہرا یارانہ ہونا۔
"طرز معاشرت بھی انگریزی تھا اور یونین کلب کے تو وہ کرتا دھرتا تھے انگریزوں سے ان کی خوب چھنتی تھی"      ( ١٩٣٦ء، پریم چند، خاک پرواز، ٨٣ )
٦ - مسابقت، چشمک یا مقابلہ ہونا۔
 امڈے ہوئے دونوں میں برابر کی چھنے گی وہاں ابر ہے یاں دیدۂ تر دیکھئے کیا ہو      ( ١٨٧٨ء، آغا (آغا حسین اکبر آبادی)، دیوان، ١٠٤ )
٧ - صاف کیا جانا؛ دور ہونا۔
 گرمیاں ہیں التفات یار کی چھن رہی ہیں وصل کی ٹھنڈئیاں      ( ١٩٤٦ء، سنگ و خشت، ٢٠٣ )
٨ - ظاہر یا نمایاں ہونا، چھٹنا۔
 اگرچہ لفظوں کی بدلیوں میں چھپا ہے معنی کا چاند اکبر مگر معانی ہیں ایسے روشن کہ نور کی طرح چھن رہے ہیں      ( ١٩٢١ء، اکبر، کلیات، ٣٠٥:١ )
٩ - عکس پڑنا، منعکس ہونا، مصفٰی ہونا۔
"آفتاب حق کی کرنیں ان کثیف بادلوں میں سے چھن چھن کر سطح قلوب پر گرتی تھیں"      ( ١٩١٤ء، سیرۃ النبی، ١١:٢ )
١٠ - چھاننے کے عمل سے گزرنا، کسی سوراخ دار ظرف سے کسی چیز کا نکلنا۔
 نہ پائی اس پر بھی صفائی حسن جاناں کی چھنی دوچار چھنوں سے چمک مہر درخشاں کی      ( ١٩٢٥ء، شوق قدوائی، دیوان، ١٨٦ )
١١ - کسی مائع کا چھن کر ٹپکنا، ترشح ہونا، رسنا۔
 اے فلک گر یہ پیہم ہے یہ کس کے غم میں دامن ابر سے چھنتے ہیں برابر آنسو      ( ١٨٦٥ء، نسیم دہلوی، دیوان، ١٨٨ )
١٢ - آر پار ہونا، نکلنا، پار ہونا جانا۔
"کھڑکی کے شیشوں سے مدھم سی روشنی چھن رہی تھی"      ( ١٩٧٧ء، ابراہیم جلیس، الٹی قبر، ١٦٣ )
١٣ - کسی معاملے کی چھان بین ہونا۔
"چالان ہوا یہاں مقدمہ چھنا، اظہار ہوئے میاں اللہ بخش نے پولیس کے دام میں آکر جرم کا اقرار کیا"      ( ١٩١٠ء، راحت زمانی، ٨٢ )
١٤ - زخمی ہونا، تیروں گولیوں یا کسی نکیلی چیز کی ضرب لگنا۔
"سینے دلاوروں کے پیکانوں کی بہتات سے یک لخت چھن گئے"      ( ١٨٠٥ء، آرائش محفل، افسوس، ٣١٣ )