فعل متعدی
١ - ترک کرنا، تیاگنا۔
چین لینے نہیں دیتے ترے ہاتھوں معشوق اب تو یہ شہر میں اے آئینہ گر چھوڑوں گا
( ١٩٢٥ء، شوق قدوائی، دیوان، ١٢ )
٢ - ترک محبت کرنا، عقیدت مندی سے باز رہنا۔
کھیل سمجھنا ہے کہیں چھوڑ نہ دے بھول نہ جائے کاش یوں بھی ہو کہ بن میرے ستائے نہ بنے
( ١٨٦٩ء، غالب، دیوان، ٢٤٦ )
٣ - الگ ہونا، دور ہونا، باز آنا۔
کھکھل میں اب تو اے نگہ یار ہو چکا بس چھوڑ بھی خدا کے لیے پیار ہو چکا
( ١٩٤٢ء، سنگ و خشت، ٤ )
٤ - ترک تعلق کرنا۔
"مجھے سخت مشکل پیش آگئی ہے، بھابی! میرے سب ساتھی مجھے چھوڑ گئے"
( ١٩٦٢ء، حکایات پنجاب، ١٧٥:١ )
٥ - دنیا سے گزر جانا، مر جانا۔
یہ نہیں زنہار رہنے کا مقام چھوڑ جاوے گا اسے تولا کلام
( ١٨١٤ء، عجائب رنگین، ٢٩ )
٦ - ترک عادت کرنا۔
"بلقیس: یہ چائے چھوڑتی کب ہیں روزانہ میں اپنے ہاتھ سے اوولٹین بنا کر ان کو پلاتی ہوں"
( ١٩٣٩ء، شمع، ١٢ )
٧ - رہا کرنا، آزاد کرنا۔
"بادشاہ نے خوشی منائی اور جو قیدی چھوڑے گئے تھے ان میں میں نے بھی رہائی پائی"
( ١٩٣٠ء، اردو گلستان، ٤٩ )
٨ - گرفت ہٹا لینا، ہاتھ سے جانے دینا۔
جاؤ تم روک مجھے یاد ہے بیتابی کی دونوں ہاتھوں سے میں کیوں اپنا جگر چھوڑوں گا
( ١٩٢٥ء، شوق قدوائی، دیوان، ١٢ )
٩ - آتش بازی، بندوق، توپ اور تیر وغیرہ کا چلانا، فیر کرنا۔
"شاہی اور انگریزی توپ خانے سے سلامی کو توپیں چھوڑی گئیں"
( ١٩٣٤ء، بہادر شاہ ظفر کا روزنامچہ، ٣٢ )
١٠ - وار کرنا، حملہ کرنا؛ مارنا۔
تم نے ناحق آن مروڑی بے چارہ بد کاتب چھوڑی
( ١٩٨٥ء، پھول کھلے ہیں رنگ برنگے، ٣٠ )
١١ - قطع نظر کرنا، نظر انداز کرنا۔
جو دیکھے گا روتے مجھے، تم کو ہنستے مری بات چھوڑو تمہیں کیا کہے گا
( ١٩٣٨ء، سریلی بانسری، ٢٠ )
١٢ - بچانا، محفوظ رکھنا۔
"رگ چھوڑ کر کاٹنا"
( ١٩٢٦ء، نوراللغات، ٥٧١:٢ )
١٣ - واگزاشت کرنا۔
"ان کا خیال اس سے یہ تھا کہ "ہندوستان چھوڑ دو" کا نعرہ تو ہندوستانیوں کو پسند آئے گا. اور منظم طور پر ہندوستان چھوڑنے کا مشورہ سازش کے لیے کام آئے گا"
( ١٩٧٥ء، ہمارے قائداعظم، ٤٦ )
١٤ - گرانا، ڈالنا (پردے اور چلمن وغیرہ کے ساتھ)۔
کچھ بڑھالوں گا شب وصل کو اس چال سے آج صبح سے پہلے ہی میں پردۂ در چھوڑوں گا
( ١٩٢٥ء، شوق قدوائی، دیوان، ١٢ )
١٥ - استعفا دینا، نوکری سے علیحدگی اختیار کرنا۔ (نوراللغات)
١٦ - ڈالنا (خط کے ساتھ)۔
دل کے بہلانے کو چھوڑوں ڈاک میں اس کی جانب سے خط اپنے نام کا
( ١٩٢٥ء، شوق قدوائی، دیوان، ١٣٤ )
١٧ - شامل کرنا، ڈالنا، ملانا۔
مجھ کو معلوم ہے پیمانہ مے میں ساقی تونے جو کچھ کہ مری آنکھ بچا کر چھوڑا
( ١٩٢٣ء، کلیات حسرت، ٢٢٧ )
١٨ - تیل یا گھی میں ڈالنا، بگھارنا، تلنا۔
"جب مصالحہ خوب بھن جائے تو اس میں کھنڈویاں چھوڑ دو"
( ١٩٠٦ء، نعمت خانہ، ٧٠ )
١٩ - (لٹ زلف وغیرہ کے ساتھ) لہرانا، بکھیرنا، لٹکانا۔
وہیں کیوں پردہ بن کر رخ پہ زلفوں کو ہٹا دیجئے کہ ان کو چھوڑنے کے واسطے دیوارگلستان چھوڑا
( ١٩٧٣ء، کلیات قدر، ١٣٣ )
٢٠ - طلاق دے دینا، میاں کا علیحدہ ہو جانا۔
"میں جو گل رخ کو طلاق دے دی یہ اچھا ہوا یا برا ہوا?.مگر ان کا چھوڑنا ہی میرے حق میں بہتر ہوا"
( ١٩٢٥ء، مینا بازار، شرر، ١٨٠ )
٢١ - کسی کام کو پورا کرکے دم لینا، کوئی بات کیے بغیر نہ رہنا۔
کوچہ اس فتنۂ دوراں کا دکھا کر چھوڑا دل نے آخر ہمیں دیوانہ بنا کر چھوڑا
( ١٩٢٤ء، کلیات حسرت، ٢٢٧ )
٢٢ - جھپٹانا، دوڑانا (کسی شکار کرنے والے پرند یا حیوان کا)۔
"باز کی آنکھیں عموماً سی کریا ٹوپ چڑھا کر رکھتے ہیں جب شکار پر چھوڑنا ہو تو آنکھیں کھول دیتے ہیں"
( ١٩٧٦ء، عملی اردو لغت، ١٨١ )
٢٣ - بہانا، جاری کرنا، چلانا (گاڑی کشتی وغیرہ)۔
"گارڈ صاحب نے . فرمایا اچھا تو چھوڑو گاڑی میں سیٹی بجاتا ہوں"
( ١٩٤٦ء، سودیشی ریل، ٣١ )
٢٤ - ڈالنا (کسی چیز کا کسی چیز پر یا کسی چیز میں)۔
"بولے دال میں گھی کیوں نہیں چھوڑا"
( ١٩٣٦ء، پریم چند، پریم پچیسی، ٦٣:١ )
٢٥ - باز آنا (کسی چیز کے لینے یا کوئی بات کہنے سے)، کسی کام سے رکنا۔
"چھوڑو ماں یہاں کوئی اپنا نہیں ہے کسی سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں"
( ١٩٨٥ء، ماہ نو، لاہور، جنوری، ٥٠ )
٢٦ - منحصر کرنا، حوالے کرنا؛ موقوف کرنا (پر کے ساتھ)۔
"اس نے روز جزا کا اہم ترین معاملہ کسی انجانے یا غیر حاکم کے ہاتھ نہیں چھوڑا"
( ١٩٧٢ء، میاں کی اٹریا تلے، ٣٤ )
٢٧ - باقی رکھنا۔
"بارات رخصت ہو رہی تھی کچھ یادیں لے کر اور کچھ چھوڑ کر"
( ١٩٨٥ء، ماہ نو، لاہور، ستمبر، ٣٩ )
٢٨ - یادگار کے طور پر دنیا یا باقی رہنا۔
"افسوس عین جوانی میں انتقال کیا اور کوئی اولاد بھی نہ چھوڑی"
( ١٩٣٥ء، بیگمات شاہان اودھ، ٤٣ )
٢٩ - جیسے کا تیسا رہنے دینا، بخنسہ باقی رہنے دنیا، استعمال سے منہ پھیر لینا۔
آگیا کچھ جو زبان پر زہر فراق تغم نے حکھتے ہی مرا خون جگر چھوڑ دیا
( ١٨١٦ء، دیوان ناسخ، ٢٢:١ )
٣٠ - نر جانور کو مادہ جانور پر چڑھانا، نرو مادہ کی جفتی کرانا۔
"گھوڑے کو لے جا کے ایک گھوڑی کہ نایاب زمانہ حقیقت میں اوس کا جوڑا تھا اوس پر چھوڑا"
( ١٨٦٤ء، سرور سلطانی، ٨٧ )
٣١ - دوسری جگہ جا رہنا، ترک وطن کرنا، ہجرت کرنا۔
کسو اور جاؤں گا چھوڑا عرب جش ہند اپنا کروں گا مقام
( ١٨١٠ء، میر، کلیات، ١٢٠٣ )
٣٢ - (مکان) خالی کرنا، ترک سکونت کرنا، ایک گھر سے دوسرے گھر جانا۔
"تاہم وہ بھی ماں باپ کا گھر چھوڑ کر آئی تھی"
( ١٩٨٥ء، ماہ نو، لاہور، جنوری، ٤٤ )
٣٣ - ہمت ہارنا، بزدلی، دکھانا۔
پیک صبا نے آکے یہ فرہاد سے کہا لے تیشہ اپنے ہاتھ میں اپنا نہ کام چھوڑ
( ١٨١٨ء، انشا، کلیات، ٦٢ )
٣٤ - لڑھکانا، غلطاں کرنا؛ بازگشت کرنا۔ (فرہنگ آصفیہ؛ نوراللغات)
٣٥ - علیحدہ ہونا، جدا ہونا۔
"مگر نواسی تو پندرہ کیا پندرہ سو بھی کوئی دیتا تو نسیم کو خوشی سے چھوڑنے والی نہ تھی"
( ١٩٠٨ء، صبح زندگی، ١٩٧ )
٣٦ - لگانا، ملمع کرنا، چڑھانا۔
"کرو میم اور بغیر کام کرنے والے حصوں پر چاندی اور پارے کا مرکب چھوڑا جاتا ہے"
( ١٩٧٨ء، آفسٹ لیتھو گرافی، ٥٥ )
٣٧ - رکھنا، ڈالنا۔
"اس نے جاتے ہوئے مجھ سے فریب کیا کہ خاموش سے اپنی انگوٹھی پلنگ پر چھوڑ گیا"
( ١٩٦٢ء، حکایات پنجاب، ٣٣١:١ )
٣٨ - خارج کرنا۔۔
جو گڑھی میں نہ چھوڑتے یوں گوز بجتی رہتی تپک کہاں سے روز
( ١٨١٠ء، میر، کلیات، ١٠٠٣ )
٣٩ - (بات یا شگوفے وغیرہ کے ساتھ) پھیلانا، (لوگوں تک) پہنچانا۔
دل خون ہوے اک دم ہزاروں ستمگر کیا تونے شگوفہ یہ نیا آن کے چھوڑا
( ١٨٥٦ء، کلیات ظفر، ٥:٤ )
٤٠ - اجازت دینا۔
دل پر داغ کو لپکا ہے تیری آنکھوں کا ہم نے چیتے کو پے صید غزالاں چھوڑا
( ١٨٧٤ء، کلیات قدر، ١٣٣ )
٤١ - ہٹنا، کسی مرکز یا نقطے سے روانہ ہونا یا سرک جانا۔
"عرصہ وقت درمیان اوس کے ایک نقطۂ اعتدال چھوڑنے کا اور پھر اوس کے وہاں پہنچنے کا وہی ہے"
( ١٨٤٠ء، رسالہ علم ہیت، ١٦١۔ )
٤٢ - پہنچنانا، واپس کرنا، معاملہ ختم کرنا، منزل قرار دینا۔
"وہاں سے سوار ہو کر آیا، دو کوس پر لا کر چھوڑا ٹکا کہا ری کا نہ دیا"
( ١٨٩١ء، طلسم ہوش ربا (انتخاب)، ٢٧٩:٥ )
٤٣ - معاف کرنا، درگزر کرنا۔
"آج تو خیر میں نے تم کو چھوڑ دیا، اب اگر کسی چیز کو دیکھ کر بلکیں یا مانگی تو ایسا ماروں گی کہ تم کو مزہ آجائیگا"
( ١٩٠٨ء، صبح زندگی، ٦ )
٤٤ - باقی رکھنا، بچانا۔
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا، زمانے میں تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں
( ١٧٨٠ء، سودا، کلیات، ١٢١:١ )
٤٥ - نامکمل رہنے دینا، ادھورا رکھنا۔
چھوڑا مہ نخشب کی طرح دست قضا نے خورشید ہنوز اس کے برابر نہ ہوا تھا
( ١٨٦٧ء، غالب، دیوان، ١٥٢ )