چھونا

( چُھونا )
{ چُھو + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


چھپ  چُھونا

سنسکرت زبان کے لفظ 'چھپ' سے ماخوذ 'چھو' بنا اور پھر اردو علامت مصدر 'نا' لگنے سے 'چھونا' بنا اردو میں بطور مصدر مستعمل ہے ١٣٨٠ء کو "شیخ شرف الدین فیزی، (مقالات شریانی)" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل متعدی
١ - مس کرنا، ہاتھ لگانا۔
"اگر اس مچھلی کے دونوں اعضا میں سے صرف ایک کو چھوا جائے تو بجائے ایک زبردست جھٹکے کے صرف ایک سنسنی سی محسوس ہوتی ہے"      ( ١٩٤١ء، حیوانی دنیا کے عجائبات، ٧١ )
٢ - اثر کرنا؛ متاثر کرنا، مانوس کرلینا۔
 دلوں کو کئی بار چھو تو گئی مری شاعری اور کیا چاہیے      ( ١٩٥٩ء، غزلستان، ١٢٨ )
٣ - دوڑ میں کسی کو پکڑ لینا، جا لینا۔
"ہاتھی جب تیز بھاگتا ہے تو اونٹ کی ہستی نہیں جو اس بلا بے درماں کو چھولے"      ( ١٩١٨ء، بہادر شاہ کا مولا بخش ہاتھی، ٢ )
٤ - چھیڑنا، زیر بخث لانا؛ ذکر کرنا۔
"فرض قیادت انجام دینے کے لیے وہ ان کے اساسی خیالات کو چھوتے تک نہیں"      ( ١٩١٨ء، روح الاجتماع، ١١٠ )
٥ - ستانا؛ سزا دینا۔
"جیسا ہم نے تجھے نہیں چھوا اور تجھ سے نیکی چھٹ کچھ نہیں کیا اور تجھ کو سلامت بھیجا تو بھی ہمیں نہ ستاوے"    ( ١٨٢٢ء، موسٰی کی توریت مقدس، ٩٥ )
٦ - بہت سزا دینا، معمولی تنبیہ کرنا، برائے نام ڈانٹ ڈپٹ کرنا۔
"اسے کتنی نازو نعم سے پالا، کبھی اس کو پھول کی چھڑی سے بھی نہ چھوا"    ( ١٩٣٥ء، دودھ کی قیمت، ١٧ )
٧ - کانٹا (سانپ کے ساتھ مختص)
"ان کے لڑکے کا حال تم نے سنا ہو گا کالے نے چھو لیا ہے"حو١٩٣٦ء، پریم چند، پریم چالیسی، ١٨:١
٨ - [ کنا یۃ ]  گود میں لینا۔
"دائی بچے کو کسی وقت چھوتی بھی نہیں"      ( ١٩٢٦ء، نواللغات، ٥٧١:٢ )