چھیلنا

( چِھیلْنا )
{ چِھیل + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


چھلی  چھیل  چِھیلْنا

سنسکرت زبان کے لفظ 'چھلی' سے ماخوذ 'چھال' سے 'چھیل' بنا۔ اور اس کے ساتھ 'نا' بطور لاحقہ مصدر لگانے سے 'چھیلنا' بنا۔ اردو میں بطور فعل متعدی مستعمل ہے۔ ١٦٣٩ء، کو "طوطی نامہ، غواصی" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل متعدی
١ - پوست اتارنا، چھلکا اتارنا۔
"آلوؤں کو چھیل کر کانٹے سے گود لیں"      ( ١٩٧٠ء، گھریلو انسائیکلوپیڈیا، ٥٤٦ )
٢ - خراش ڈالنا، کھجلانا۔
"جانور ان کو اپنے دانتوں سے چھیلتا ہے جس سے زخم ہو جاتے ہیں"      ( ١٩٨٢ء، جانوروں کے متعدی امراض، ٧٦ )
٣ - تکلیف دینا، اذیت پہنچانا؛ زخمی کرنا۔
 انگھوٹھی لعل کی دکھلا کے پل میں پری رونے مرے دل کو چھیلا ہے      ( ١٧٤٥ء، شاکر ناجی، دیوان، ٢٨٧ )
٤ - صاف کرنا، بالائی سطح اتارنا؛ (خیالات و افکار) بدل ڈالنا۔
 یہ وہ تلبیس ہے ابلیس کو خود ناز ہے جس پر مسلمانوں کو اس رندے نے اچھی طرح چھیلا ہے      ( ١٩٣١ء، بہارستان، ٥٦٧ )
٥ - کھر چنا، مٹا دینا، اڑانا (بیشتر حروف ونقوش، خیال و فکر کے ساتھ)۔
"پریس ایکٹ کے اشارے سے . یا اور کسی طرح کے حکم سے ان مورتوں کے خط و خال چھیل دئے گئے ہیں"      ( ١٩١٣ء، انتخاب توحید (دیباچہ)، الف، ٧ )
٦ - بھلانا، فراموش کرنا۔
 لوح دل پر نقش جو ہوتا ہے کیونکہ چھیلیے محو گر کیجئے اسے جاتی نہیں ہے ہر نوشت      ( ١٨٢٧ء، دیوان شاداں، ٥١:٢ )
٧ - اکھاڑنا، گھاس جڑ سے نکالنا۔
"چاروں میں سے کوئی نہ بولا سب کے سب سر جھکائے گھاس چھیلتے رہے"      ( ١٩٢٢ء، گوشۂ عافیت، ٣٢١:١ )
٨ - (زائد حصہ) برابر کرنا، (خراب حصہ) الگ کرنا، سطح ہموار کرنا۔
"اس کو ریتی سے چھیل دو یا بہت باریک آلات سے نرمی کے ساتھ کاٹ دو"      ( ١٩٤٧ء، جراحیات زہراوی، ٦٢ )