چھیڑنا

( چھیڑْنا )
{ چھیڑ (ی مجہول) + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


کشپت  چھیڑ  چھیڑْنا

سنسکرت زبان کے لفظ 'کشپت' سے ماخوذ 'چھیڑ' کے ساتھ 'نا' بطور لاحقہ مصدر لگانے سے 'چھیڑنا' بنا۔ اردو میں فعل متعدی ہے۔ ١٧٠٠ء کو "من لگن" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل متعدی
١ - چھونا، ہاتھ لگانا، مس کرنا۔
 تو نے چھیڑا نیم وا کلیوں کی باچھیں کھل گئیں تیرے دم سے ان کو منہ مانگی مرادیں مل گئیں      ( ١٩١٢ء، مطلع انوار، ١٧ )
٢ - گانا، الاپنا۔
 خود بخود آواز کر گس ڈوب کر ہوتی ہے گم چھیڑتے ہیں حریت کا نغمہ جب مل کر طیور      ( ١٩٨٦ء، جنگ، کراچی، ٢٣ مئی، ٣ )
٣ - باجا بجانا، مضراب سے حرکت دینا۔
 روز جا کے ندی پر وہ چھلیا چھیڑے موہن سروں میں مرلیا      ( ١٩٦٥ء، چاندنی کی پتیاں، ٣٥ )
٤ - [ طبیعیات ]  ارتعاش کے قوانین کے مطابق تعدد پیمایا سولو میڑ پر آواز پیدا کرنا۔
"اس مقصد کے لیے برابر میں ایک اور تار بھی استعمال کیا جاتا ہے تاکہ مقابلے میں آسانی رہے اسے اتنا کھینچا جاتا ہے کہ جب اسے چھیڑا جائے تو اس سے وہی سرنکلے جو معیاری دو شاخہ پیدا کرتا ہے"      ( ١٩٦٧ء، آوزاز، ١٣٩ )
٥ - شروع کرنا، آغاز کرنا، سنانے کی ابتدا کرنا۔
 وہی کچھ خواب ہوں گے اور کچھ اوہام بیداری جہاں سے چھیڑیے کم بخت دنیا کے فسانے کو      ( ١٩٤١ء، انوار، ٦١ )
٦ - خلل ڈالنا، آرام میں مخل ہونا، شرارت کرنا۔
 نا وہ رینکے نہ وہ بھونکے تم چھیڑو تو کیوں نہیں چونکے      ( ١٩٨٥ء، پھول کھلے ہیں رنگ برنگے، ٢٩ )
٧ - حقارت آمیز سلوک کرنا، تحقیر کے ساتھ مخاطب کرنا، شرارت بھرا برتاؤ کرنا، کلمات تحقیر سے کسی کو آزردہ کرنا، بھڑکانا، اشتعال دلانا۔
 مجھ سے بچ کر رہنا تم جانو گر چھیڑا      ( ١٩٨٥ء، پھول کھلے ہیں رنگ برنگے، ١٤ )
٨ - تنگ کرنا، ستانا، دق کرنا۔
"بس ہر وقت چھیڑتے رہتے ہیں صبح اٹھتے ہی پہلا سوال ہوتا ہے.کوئی خط آیا"      ( ١٩٨٢ء، انسانی تماشا، ٤٠ )
٩ - مذاق کرنا، دل لگی کرنا۔
 ہمیں بھی چھیڑ کے دیکھو کہ ہم صبا کی طرح مزاج زلف شکن درشکن سمجھتے ہیں      ( ١٩٧٩ء، زخم ہنر، ٢٠٤ )
١٠ - آوازیں کسنا، طعن کرنا؛ لعنت ملامت کرنا۔
تونے اس لڑکی کو چھیڑا نہیں ہے"      ( ١٩٧٧ء، ابراہیم جلیس، الٹی قبر، ١٦٧ )
١١ - بحث کرنا، دلایل دینا، قایل کرنا، بات کا جتانا، آگاہ کرنا، باخبر کرنا۔
 چھیڑا ہے میں نے جاکے برہمن کو دیر میں لی ہے قسم بتوں سے خدائے کبیر کی      ( ١٨٤٦ء، آتش، کلیات، ١٤٥ )
١٢ - حال احوال پوچھنا، مزاج پرسی کرنا؛ نمک پاشی کرنا، زخم ہرا ہونا، حرکت میں لانا۔
 وقت کی دولت بیدار سے جو زخم کہن بھر چلا تھا اسے پھر آج صبا چھیڑ گئی      ( ١٩٤٤ء، عرش و فرش، ٢٥٨ )
١٣ - مہمیز کرنا، دوڑانا۔
 حضرت نے سنا جب یہ بیان حرغازی آنکھیں ہوئیں پر آب بڑھے چھیڑ کے تازی      ( ١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ٣٧:٥ )
١٤ - کسی بات یا کام کا سلسلہ قائم کرنا، شروع کرنا، آغاز کرنا۔
 پرہوں میں شکوے سے یوں، راگ سے جیسے باجا اک ذرا چھیڑیے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے      ( ١٨٦٩ء، غالب، دیوان، ١٤٥ )