چھیڑ چھاڑ

( چھیڑ چھاڑ )
{ چھیڑ (ی مجہول) + چھاڑ }

تفصیلات


سنسکرت زبان کے لفظ 'کشیت' سے ماخوذ اردو مصدر 'چھیڑنا' سے حاصل مصدر 'چھیڑ' کے ساتھ 'چھاڑ' بطور تابع مہمل لگانے سے مرکب 'چھیڑ چھاڑ' بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے ١٨١٨ء کو "کلیات انشا" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - ہنسی مذاق، دل لگی۔
"اس میں حسن و عشق کی چھیڑ چھاڑ اور زبان و بیان کی بہت سی خوبیاں موجود ہیں"      ( ١٩٦٣ء، تحقیق و تنقید، ٢٢٨ )
٢ - نوکا چوکی، نوک جھونک۔
"آئے دن کی چھیڑ چھاڑ سے غالباً تحرکی میں آئے گا"      ( ١٩٢١ء، مہدی الافادی، افادات مہدی، ٤٨٠ )
٣ - آزار دہی، اشتعال دلانے والی بات، طعن و طنز۔
"اردو کے مخالفوں نے اخبارات میں چھیڑ چھاڑ شروع کر دی تھی"      ( ١٩٣٨ء، حالات سر سید، ٣١ )
٤ - تحریک، ابتدا، آغاز۔
"ہندوؤں کی اس قومی مجلس میں.اس بات کی چھیڑ چھاڑ شروع ہوئی"      ( ١٩٣٧ء، خطبات عبدالحق، ١٠٢ )
٥ - لڑائی، بھڑائی، جنگ جوئی، حملہ آوری۔
"علی بابا، مسلمانوں کی دوئی طاقت کے ساتھ مقابلہ میں آیا مگر جم کر مقابلہ نہیں کیا بلکہ چھیڑ چھاڑ کا طویل سلسلہ طول دیتا گیا"      ( ١٩٧٥ء، تاریخ اسلام، ١٤١:٣ )
٦ - دخل اندازی، مداخلت۔
اگر ان قوموں کے معاملات میں پولی ٹیکل افسر مداخلت بیجانہ کریں اور کوئی اور کوئی چھیڑ چھاڑ ان سے نہ کریں.پیش دستی نہ کریں"      ( ١٩٠٧ء، کرزن نامہ، ٣٨ )
٧ - سلسلہ، تعلق، واسطہ۔
 رہی جو خط و کتابت کی چھیڑ ان سے ظفر بہت سیہ ہوئے اس چھیڑ چھاڑ میں کاغذ      ( ١٩٤٥ء، کلیات ظفر، ٩٠:١ )
٨ - [ نفسیات ]  ہیجان، جوش۔
"یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ اچانک بصیرت کا تجربہ کریں جو توقع کے خلاف چھیڑ چھاڑ کر آتی ہے"      ( ١٩٦٩ء، نفسیات کی بنیادیں، ٢٤١ )
٩ - مساس، چُہل، لطف اندوزی۔
"اگر نفس میں یہ بات بھی کہ کس طرح سے اس کا قرب اور چھیڑ چھاڑ میسر ہو تو ایسی نظر نظر بد کہلاتی ہے اور حرام ہے"      ( ١٨٦٤ء، مذاق العارفین، ١١٤:٣ )
١٠ - مقابلہ، اکساوا، لاگ، ڈاٹ، چڑھاوے اور چڑانے عمل۔
"طبلہ اور ہارمونیم.سے آس دی جاتی ہے اور آپس کی چھیڑ چھاڑ سے سر ملانے شروع ہوتے ہیں"      ( ١٩٤٠ء، آغا شاعر، خمارستان، ١٢٣ )