چھیڑ خانی

( چھیڑ خانی )
{ چھیڑ (ی مجہول) + خا + نی }

تفصیلات


سنسکرت زبان کے لفظ 'کشیت' سے ماخوذ اردو میں مصدر 'چھیڑنا' سے حاصل مصدر 'چھیڑ' کے ساتھ فارسی اسم 'خان' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ نسبت لگانے سے 'چھیڑ خانی' بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٨٨٠ء کو "فسانۂ آزاد" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - ہنسی مذاق، دل لگی۔
"ساقی میں چھیڑ خانی شروع ہو گئی"      ( ١٩٨٢ء، مری زندگی فسانہ، ٢٩١ )
٢ - ستانے اور چڑانے کا عمل۔
"وہ دوست چھیڑ خانی پر تلے ہوئے تھے اس لیے دوسرے انداز سے وہی سوال دہرایا"      ( ١٩٨٤ء، قلمرو، ٥٩ )