زیرسایہ

( زیرِسایَہ )
{ زے + رِے + سا + یَہ }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان میں اسم 'زیرد کے آخر پر 'کسرۂ صفت' لگا کر اسم 'سایہ' لگانے سے مرکب توصیفی 'زیرسایہ' بنا۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم صفت اور گاہے متعلق فعل استعمال ہوتا ہے۔ ١٩١٤ء کو شبلی کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
١ - چھاؤں میں، سائے تلے، (مجازاً) پناہ میں، حمایت میں۔
"اس کی پرورش بڑے بڑے برگزیدہ پیغمبروں کے زیرسایہ ہوئی ہے۔"      ( ١٩٨٧ء، شہاب نامہ، ٥٨١ )
٢ - ملحق، ملا ہوا، جوار میں، پڑوس میں، نزدیک۔
 مسجد کے زیر سایہ، خرابات چاہیے بھوں پاس آنکھ، قبلہ حاجات چاہیے      ( ١٨٦٦ء، غالب، دیوان، ٢١٩ )
  • زیرِحِمَایَت
  • زیرِپَناہ
  • پَناہ گِیر