شادیانہ

( شادِیانَہ )
{ شا + دِیا + نَہ }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی میں صفت 'شاد' کے ساتھ 'انہ' بطور لاحقہ اسمیت ملنے سے 'شادیانہ' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٧٩٤ء کو "جنگ نامہ آصف الدولہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : شادِیانے [شا + دِیا + نے]
جمع   : شادِیانے [شا + دِیا + نے]
جمع غیر ندائی   : شادِیانوں [شا + دِیا + نوں (و مجہول)]
١ - باجا جو بیاہ، فتح یا کسی اور خوشی کے موقع پر بجایا جائے، وہ ساز جو خوشی کے موقع پر بجایا جائے اور اس کی آواز سے خوشی کا اظہار ہو۔
"اور جب چاروں طرف شادیانوں کی بجائے ماتم کا سا سماں نظر آتا تھا۔"      ( ١٩٨٢ء، آتشِ چنار، ٦٢٥ )
٢ - خوشی یا مبارکباد کا گیت جو فتح اور شادمانی کے موقع پر گایا جائے۔
"دوسرا طائفہ بسم اللہ جان کا تھا . زیور پہنے بیٹھی ابھی صرف شادیانے گا رہی تھی۔"      ( ١٩٦٤ء، نورِ مشرق، ٣٠ )
٣ - بدھاوا، بدھائی، مبارکباد۔ (فرہنگِ آصفیہ)
٤ - شادی بیاہ کے موقع کی نذر جو کاشتکار اپنے زمیندار کو نقدی یا غلے کی صورت میں پیش کرتے۔ (اصطلاحاتِ پیشہ وراں، 80:6)
  • relating to marriage or to rejoicings;  music and singing at marriage or on other festive occasions