اصلاً فارسی سے مرکب اضافی 'مرگِ شادی' ہے۔ صنعت تقلیب کے تحت 'شادی مرگ' بنا۔ بطور متعلق فعل استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٧١٨ء کو "دیوان آبرو" میں مستعمل ملتا ہے۔
١ - وہ موت جو کسی غیر متوقع اور غیر معمولی خوشی کے سبب واقع ہو جائے۔
"اور شادی مرگ کے حادثے ایسی ہی واقعات کے نتیجے میں رونما ہوتے ہیں۔"
( ١٩٨٦ء، جوالامکھ، ١٧٦ )
٢ - فرطِ خوشی سے مر جانے والا شخص جو غیر متوقع اور غیر معمولی خوشی حاصل ہونے کی وجہ سے مر جائے۔
"شاعر کہتا ہے . جو تمنا کی تھی وہ آج شب وصل میں دعائے بد بن کر میرے آگے آئی کہ میں فرطِ شوق سے شادی مرگ ہو گیا۔"
( ١٩٨٧ء، فنون، لاہور، نومبر، دسمبر، ١٥٠ )