پھینکنا

( پَھینْکْنا )
{ پَھینْک (ی لین، ن مغنونہ) + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


پرکشیہ  پھینْک  پَھینْکْنا

سنسکرت میں لفظ'پرکشیہ' سے ماخوذ 'پھینک' کے ساتھ علامتِ مصدر 'نا' ملنے سے 'پھینکنا' حاصل ہوا۔ بطور مصدر استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٧٣٢ء کو "کربل کتھا" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل متعدی
١ - ڈالنا، گرانا۔
 بن پڑھے خط نہ خطا وار کا تو چیر کے پھینک دیکھ کر پھینک اوراک طور سے تدبیر کے پھینک    ( ١٨٥٤ء، کلیاتِ ظفر، ٥٨:٣ )
٢ - (قرعہ یا پانسا) ڈالنا۔
"میر صاحب نے پہلے ایک قرعہ پھینکا اور ایک کاغذ پر لکھا۔"    ( ١٩١٠ء، انقلابِ لکھنؤ، ٤٠:١ )
٣ - پٹکنا، دے مارنا۔
 لحد میں کن سے دل بہلاؤں اے شاد اجل نے کس جگہ پھینکا ہے لا کر      ( ١٩٢٧ء، شاد، میخانۂ الہام، ١٥٥ )
٤ - (گھوڑا) تیز دوڑانا۔
"دائی کو دمچی سے باندھ گھوڑا پھینکا پیچھے پھر کر بھی نہ دیکھا۔"    ( ١٨٤٥ء، نغمۂ عندلیب، ١٥٨ )
٥ - (ٹپا | کھیلنا؛ (تیر) چلانا (نوراللغات : جامع اللغات)
٦ - (روپیہ دولت وغیرہ) ضایع کرنا، برباد کرنا۔
پہلے کا زمانہ ہوتا تو جمعدار صاحب پندرہ روپے پاتے ہی نہ جانے کیا کیا کر ڈالتے مگر اب وہ روپیہ پھینک نہ سکتے تھے۔"      ( ١٩٥٨ء، خونِ جگر ہونے تک، ٢٣٠ )
٧ - بکھیرنا۔
 ہنس ہنس کے دل مانگا گیسو سنبھالے بڑے رنگ پھینکے بڑے جال ڈالے      ( ١٩٦٨ء، قمر جلالوی، رشک قمر، ٨٩ )
٨ - اچھالنا۔ (نوراللغات)
(دل کے ساتھ) عاشق ہونا؛ (روپیہ وغیرہ) نچھاور کرنا؛ (گیند وغیرہ کا) اچھالنا۔ (جامع اللغات)