رکاب

( رِکاب )
{ رِکاب }
( عربی )

تفصیلات


رکب  رِکاب

عربی میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں اصل معنی اور ساخت کے ساتھ داخل ہوا۔ سب سے پہلے ١٦١١ء میں قلی قطب شاہ کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : رِکابیں [رِکا + بیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : رِکابوں [رِکا + بوں (و مجہول)]
١ - سوار کے پیر رکھنے کو زین کے دونوں تسمے میں لٹکے ہوئے آہنی پا انداز جن میں سے ایک میں پیر ڈال کر گھوڑے پر چڑھتے ہیں، گھوڑے کی زین میں لٹکا ہوا لوہے کا کمان نما حلقہ جس میں پانو رکھنجے کے لیے آہنی تختہ جڑا ہوتا ہے۔
"برش، تسمے . رکاب اور خدا معلوم اور کتنا سامان تمدن و معیشت آج انہی الانعام کے دم سے قائم ہے۔"      ( ١٩٥٤ء، حیواناتِ قرآنی، ٢٤ )
٢ - [ مجازا ]  سواری کا جلوس، سواری کا پہلو، جلو، تزک، حشم و خدم۔
"جالینوس اس پورے سفر میں اس کے ہمراہ رکاب رہا تھا۔"      ( ١٩٢٦ء، شرر، مضامین، ١٠٤:٣ )
٣ - ہمراہی، معیشت، حضوری، ماتحتی، زیرِحکومت۔
"اس کے رکاب میں سات سو سوار برابر موجود رہتے تھے۔"      ( ١٩٥٨ء، ہندوستان کے عہد وسطٰی کی ایک جھلک، ١٢٧ )
٤ - [ کاپی نویسی ]  کاپی کے حاشیے کے آخری کونے پر آئندہ صفحے کا پہلا کلمہ جو بطور یادداشت لکھا جاتا ہے۔ لنگر، ترک، پوٹ۔ (اصطلاحات پیشہ وراں، 229:4)
٥ - [ گاڑی بانی ]  کمانی کے پلڑوں کو کسا رکھنے والا چمٹا، تھامو، ہسکا، بائیسکل کا پا انداز، آہنی حلقہ۔ (اصطلاحات پیشہ وراں، 133:5)
٦ - [ طب ]  کان میں آواز کو لے جانے والا عظامِ صغیر، آواز کو پردے سے صاف گوش تک لے جانے کے لیے بنا ہوا ایک چھوٹا راستہ جو پل کی شکل کا ہوتا ہے۔
"درمیانی کان میں جو اہم حصے ہوتے ہیں . اپنے عام اور اصطلاحی ناموں سے اچھی طرح متعارف ہیں۔ یعنی ہتوڑا یا مطرقہ، کٹھالی یا سندان، رکاب یا رکیب۔"      ( ١٩٦٩ء، نفسیات کی بنیادیں (ترجمہ)، ٣٧١ )
٧ - لمبا سا ہشت پہل پیالہ، بڑی رکابی، بادشاہوں یا امیروں کی سواری کا گھوڑا۔
"فوراً ادنٰی رکاب کی فوج لے کر برق و باد کی طرح لپکا۔"      ( ١٨٨٤ء، قصصِ ہند، ١٤:٢ )
  • فَرْز
  • a stirrup