خانہ داری

( خانَہ داری )
{ خا + نَہ + دا + ری }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی سے ماخوذ اسم 'خانہ' کے ساتھ 'داری' بطور لاحقۂ فاعلی لگایا گیا ہے۔ فعل امر 'دار' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ کیفیت لگانے سے 'داری' بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٨٠٢ء کو "باغ و بہار" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - گھر کے معاملات، گھر کا کام کاج، انتظام خانہ۔
"گھونگٹ کا اٹھنا تھا کہ خانہ داری میں مصروف ہوئی۔"    ( ١٨٩٥ء، حیات صالحہ، ١٢٧ )
٢ - [ خانگی امور ] امورخانہ داری کا مضمون۔
"نصاب دو سال کا ہے اور حسب ذیل مضامین پر مشتمل ہے، فارسی، غیر ملکی زبان، طبیعیات، کیمیا اور خانہ داری اور بچہ داری ."    ( ١٨٦٧ء، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ٥٦٧:٣ )
٣ - گھر کا جملہ سامان، کپڑا، زیور۔
"زیور، برتن بلکہ ضرورت اور خانہ داری کی سب چیزیں . کبھی کسی نے غور کیا کہ کیا ہیں۔"    ( ١٨٧٣ء، بنات النعش، ٣٠٢ )
٤ - متاہل زندگی، شادی شدہ زندگی۔
"محبت کے راز و نیاز کی معاملہ بندیاں شاعروں نے بہت سی لکھیں، زمین آسمان کے قلابے ملائے، مگر خانہ داری کی الفتوں کا ان کو کیا مزا۔"      ( ١٩١٥ء، سی پارۂ دل، ١٩٩:١ )
٥ - ملکی انتظام و انصرام۔
 گھر پہلے بنا کے خانہ داری سکھلا ملت ہی نہیں ہے جب تو قانون کہاں      ( ١٩٢١ء، اکبر، کلیات، ٤٠٢:٣ )
٦ - اہل و عیال، بال بچے۔
"خانہ داری خدا کے فضل سے ذرا زیادہ ہے، مکان ہونا چاہیے گنجائش کا۔"      ( ١٨٩٩ء، رویائے صادقہ، ٧٤ )
  • housekeeping