خانساماں

( خانْساماں )
{ خان + سا + ماں }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ لفظ 'خان' کے ساتھ فارسی ہی کا اسم 'سامان' کی مغیر یہ صورت 'سامان' لگانے سے 'خانساماں' بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٧٤١ء کو "دیوان زادہ خاتم" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : خانْسامے [خان + سا + مے]
جمع   : خانْسامے [خان + سا + مے]
جمع غیر ندائی   : خانْساموں [خان + سا + موں (و مجہول)]
١ - داروغہ یا مہتمم (کسی بڑے گھرانے یا ریاست کا)، میر سامان، شاہی محل کا میر۔
"ان کے پاس ایک اہل کار کی ضرورت تھی جنت آرام گاہ نے لکھنو سے طلب فرما کر نواب فردوس مکان کی خدمت میں ١٢٥٩ء میں مقرر کر دیا اور خانساماں کا عہدہ دیا"      ( ١٩٢٩ء، تذکرہ کا ملان رام پور، ٤٨٤ )
٢ - کھانا پکانے والا باورچی۔
"کچھ نہ ہو تو ایک بیرا، ایک خانساماں.ان کا ہونا ضروری ہے"      ( ١٩٣٢ء، روحانی شادی، ١٩ )
٣ - انگریزی وضع سے لوگوں کھانا کھلانے والا خدمت گار، کھانے کی میز لگانے والا۔
 ہو سکے گا کس طرح احمق ادا ہوٹل کا بل نقد دل تھا وہ تو نذر خانساماں ہو گیا      ( ١٩٤٢ء، سنگ و خشت، ١٥ )
  • (lit.) "Master of the stores"
  • a house steward
  • butler
  • major-domo