چھٹکارا

( چُھٹْکارا )
{ چُھٹ + کا + را }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان سے ماخوذ لفظ 'چھوٹ' کی تخفیفی شکل 'چھٹ' کے ساتھ 'کارا' بطور لاحقہ کیفیت لگانے سے 'چھٹکارا' بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٦٥٤ء کو "گنج شریف" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : چُھٹْکارے [چُھٹ + کا + رے]
جمع   : چُھٹْکارے [چُھٹ +کا + رے]
جمع غیر ندائی   : چُھٹْکاروں [چُھٹ + کا + روں (و مجہول)]
١ - نجات، بخشش، گناہوں کی معافی۔
 ہے خدا ایک محمدۖ ہیں رسول انہیں دوباتوں پہ چھٹکارے ہیں      ( ١٨٩٧ء، دیوان مائل (احمد حسن)، ١٢٨ )
٢ - رہائی، قید سے آزادی۔
"رہائی سے ناامید ہو کے آپ ہی آپ کہہ رہی ہے پھنسی اب چھٹکارا محال ہے"      ( ١٨٩٦ء، فلورا فلورنڈا، ٣٢٧ )
٣ - فرصت، چھٹی۔
"مجھے ساتھ لے کر لوٹنا ورنہ پھر چھٹکارا پاتے ہی پہنچوں گی"      ( ١٩٤٤ء، حرف آشنا، ٨٢ )
٤ - صفر، آزادی، چھڑاؤ۔
"جس چیز کو میں عمر بھر بھولتی رہی اب اس سے چھٹکارا نہیں"      ( ١٩١٩ء، جوہر قدامت، ١٧٥ )