ختنہ

( خَتْنَہ )
{ خَت + نَہ }
( عربی )

تفصیلات


ختن  خَتْنَہ

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں اپنے اصل معنی اور حالت میں مستعمل ہے۔ ١٨٢٢ء کو موسٰی کی "توریت مقدس" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر، مؤنث - واحد )
واحد غیر ندائی   : خَتْنے [خَت + نے]
جمع   : خَتْنے [خَت + نے]
جمع غیر ندائی   : خَتْنوں [خَت + نوں (و مجہول)]
١ - مسلمانوں میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قائم کی ہوئی سنت جس میں مردانہ عضو تناسل کی زائد کھال کاٹ دی جاتی ہے جو حشفے کے اوپر ہوتی ہے، سنت۔
"اس سال جنگ جشن کا خاتمہ اور شیخ نیازی کا ختنہ ہوا۔      ( ١٩٥٦ء، شیخ نیازی، ٥٧ )
٢ - علیحدہ کرنا؛ تذکیہ کرنا۔
"صوفیوں، رشیوں اور پرہیز گاروں نے جس کے لیے اپنی خوراک کی آنت ختنہ کرائی"      ( ١٩٨٠ء، زرد آسمان، ١١٤ )
٣ - مسلمانوں میں رائج ایک تقریب جس میں بچے کی ختنہ کرنےکے چند دن بعد ایک تقریب منعقد کی جاتی ہے جس میں بچے کو نئے کپڑے اور ہار پھول پہنائے جاتے ہیں اور عزیز و اقربا کی دعوت ہوتی ہے۔
"آپ تو اس قسم کے مجاہد واقع ہوئے ہیں کہ بقرعید کی قربانی سے لے کر تقریب ختنہ تک کے انتہائی مخالف ہیں"      ( ١٩٣٨ء، بحر تبسم، ٢١٤ )
٤ - [ مجازا ]  عورت اور مرد کی شرم گاہ۔
"فرمایا حضرتۖ نے جب کہ مل جاویں دونوں ختنے، غسل واجب ہوتا ہے"      ( ١٨٦٧ء، نوالہدایہ، ٣٨:١ )
  • circumcision