اسم حاصل مصدر ( مؤنث - واحد )
١ - میل کچیل، گندگی (خواہ خشک ہو یا تر)
"شکر ستار مطلق کیا کہ بدن کی آلائش گئی۔"
( ١٨٦٨ء، سرور، انشائے سرور، ١٦ )
٢ - پیٹ کی انتڑیاں وغیرہ جن میں بول و براز اور غلیظ مواد رہتا ہے، اوجھ۔
"بادشاہ کے سامنے آلائش صاف کر کے بھیڑیں بھی لائی جاتی ہیں۔"
( ١٩٢٠ء، رہنمائے قلعہ دہلی، ٣٣ )
٣ - بول و براز
"بڑھیا کے پاس ایک گائے تھی آتے جاتے قصر شاہی میں الائش کرتی۔"
( ١٨٢٤ء، سیر عشرت، ١٦ )
٤ - پھوڑے کی پیپ اور گندا خون۔
ہے کہیں ناسور خون دل کی چشم دم بہ دم نکلی ہے آلائش نئی
( ١٨١٣ء، پروانہ (جسونت سنگھ)، کلیات، ٣٥٠ )
٥ - آلودگی، نجاست باطنی، لوث، عیب کی بات میں ملوث رہنے کا عمل۔
"نہ ان کو گناہوں کی آلائش سے پاک کرے گا۔"
( ١٨٩٥ء، ترجمہ قرآن، نذیر احمد، ٤٠ )
٦ - مکروہ بات، وہ بات یا چیز جو کسی کے لیے اس کی شان کے لحاظ سے عیب ہو۔
"چھپا کر دینے کی صورت اس لیے بھی اچھی ہے کہ دینے والا نمائش اور شہرت طلبی کی آلایشوں سے اپنے اخلاق کو محفوظ رکھ سکے گا۔"
( ١٩٣٥ء، سیرۃ النبی، ٢٧٢:٥ )
٧ - وہ گندگی اور فاضل چیزیں جو زچگی کے وقت بچے کے ساتھ ساتھ ماں کے پیٹ سے خارج ہوتی ہیں، آنول نال۔
نہ ختنے کی ہوئی حضرت کو حاجت نہ آلائش تھی کچھ وقت ولادت
( ١٨٥٥ء، ریاض المسلمین، اسیر، ٢٨ )