سائل

( سائِل )
{ سا + اِل }
( عربی )

تفصیلات


سول  سائِل

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم فاعل ہے۔ اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٧٢ء کو "مراۃ الغیب" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع   : سائِلِین [سا + اِلِین]
جمع غیر ندائی   : سائِلوں [سا + اِلوں (واؤ مجہول)]
١ - دریافت کرنے والا، پوچھنے والا (کسی علمی مسئلے یا معالجے کے بارے میں)۔
"درس جاری تھا۔ طالب علم بیٹھے تھے کہ ایک سائل وہاں آیا۔"      ( ١٩٨٥ء، طوبٰی، ٤١٠ )
٢ - [ مجازا ]  بھکاری، گداگر، حاجت مند۔
"خود اچھے سے اچھا کھا لینے کے بعد بھی جب کوئی سائل سوال کرتا ہے تو اسے باسی ہی بچا کھچا دیا جاتا ہے۔"      ( ١٩٧٦ء، مرحبا الحاج، ٣٩ )
٣ - طالب، خواہاں، آرزومند۔
"وجود عشق باز بے تاب ہو گیا اور کلیجہ تھام کر عیدگاہ کی جانب چلنے لگا وہاں کچھ سائل تھے اور کچھ مسئول۔"      ( ١٩١٣ء، سی پارۂ دل، ٣٢:١ )
٤ - [ قانون ]  عرضی گزار، مستغیث، فریادی۔
"عدالت، اس سائل کو جس کا کوئی وکیل نہ ہو اپنی طرف سے سرکاری وکیل مہیا کر دیتی ہے۔"      ( ١٩٨٥ء، پنجاب کا مقدمہ، ٦٦ )
  • flowing
  • fluid
  • liquid