خدائی فوجدار

( خُدائی فَوجْدار )
{ خُدا + ای + فَوج (و لین) + دار }

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'خدائی' کے بعد عربی اسم 'فوج' کے ساتھ فارسی مصدر 'داشتن' سے فعل امر 'دار' بطور لاحقۂ فاعلی لگنے سے مرکب 'خدائی فوجدار' بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٨٨٠ء کو "فسانہ آزاد" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : خُدائی فَوجْداروں [خُدا + ای + فوج (و لین) + دا + روں (و مجہول)]
١ - وہ شخص جو خوامخواہ ہر ایک کا حمایتی بنے اور دوسروں کے کام میں دخل دے۔
"نیں بے! تجھے کیا، . تو کیا خدائی فوجدار ہے"      ( ١٩٥٢ء، جوش (سلطان حیدر)، ہوائی، ٣١ )
٢ - [ کنایتا ]  کوئی سرکاری افسر۔
 آج احمق آئی جی کی آمد آمد کا ہے شور جیل خانے کا خدائی فوجدار آنے کو ہے      ( ١٩٤٢ء، سنگ و خشت، ٣٣٧ )