رمل

( رَمَل )
{ رَمَل }
( عربی )

تفصیلات


رمل  رَمَل

عربی میں ثلاثی مجرد کے باب سے اسم ہے۔ اردو میں اصل معنی و ساخت کے ساتھ داخل ہوا۔ سب سے پہلے ١٦١١ء میں "قلی قطب شاہ" کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔ (شاذ بطور فعل بھی مستعمل ہے)

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - چٹائی | بننا۔
"اردو میں چٹائی بننے کو رمل کہتے ہیں۔"      ( ١٩٣٩ء، میزانِ سخن، ١٠٠ )
٢ - علم عروض کی بحروں میں سے ایک بحر کا نام جس کا وزن فاعلاتُن چار بار ہے (شعر کے ایک مصرع میں)۔
 میں نے کہا کہ کہتے ہیں تم کو عروض دان بحرِ رمل کی مجھ سے حقیقت کرو بیان     "امیر نے چوبیس بحروں میں تالیں ایجاد کی ہیں جن کی اقسام حسب ذیل ہیں بحرِ رمل، بحر تقارب. "      ( ١٨١٠ء، کلیاتِ میر، ١٠٣٠ )( ١٩٦٠ء، حیاتِ امیر خسرو، ١٨٥ )
٣ - موسیقی کا ایک راگ۔
"بنوامیہ کا دور ختم ہونے سے پہلے ہی چار بنیادی ایقاع یعنی ثقیلِ اول، ثقیلِ ثانی، رَمل اور ہزج مروج ہو چکے تھے"      ( ١٩٦٧ء، اردو دائرہ معارفِ اسلامیہ، ٧١٠:٣ )
٤ - آئندہ کے حالات معلوم کرنے کا ایک علم جس میں پیتل کے (سلائی میں پروئے ہوئے) چار چار بانسری کی دو پڑیوں (قرعون) سے (جن پر نقطے بنے ہوتے ہیں) مقرر قاعدے کے مطابق شکل کہا جاتا ہے کہ یہ علم فرشتے حضرت دانیال کو ریت پر نقطے بنا کر سکھایا تھا۔ (کنایۃً) نجوم، جوتش۔
"یہ بیاض اُن کے پاس رہی اس میں رمل کے حسابات اور مختلف جوابات ان سوالات کے ہیں جو ان سے دریافت کیے گئے"      ( ١٩٣٨ء، علمی نقوش، ٦٠ )
٥ - صحرا کی ریت، بالُو۔
 طالع فوج میں پستی کے نشاں پیدا تھے رملِ دشت میں ہیبت سے طقاں اعضا تھے      ( ١٨٧٥ء، دبیر، دفترِ ماتم، ١٤٢:٢ )
٦ - [ حج ]  طواف کے پہلے تین چکروں میں حجرِ اسود کے پاس مونڈھے ہلاتے اور ذرا دوڑتے ہوئے چلنے کی صورتِ حال۔
"طواف کرتے ہوئے مجھے سب کچھ بھول جاتا ہے سب کچھ، سنگِ اسود، رمل، شوط، استلام، ملتزم، مقام محمود سب کچھ۔"      ( ١٩٧٥ء، لبیک، ١١٥ )
  • sand;  a tract or collection of sand;  diving by lines or figures in sand or on the ground
  • divination