پھسلانا

( پُھسْلانا )
{ پُھس + لا + نا }
( ہندی )

تفصیلات


پُھسلانا  پُھسْلانا

ہندی سے اردو میں اصل صورت اور مفہوم کے ساتھ داخل ہوا۔ بطور مصدر استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٠٩ء کو "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل متعدی
١ - بہکانا، گمراہ کرنا، دھوکا دے کر خوش کرنا۔
"ایک کو فریب دیا اور اس کو پھسلاتا رہا"    ( ١٨٦٦ء، تہذیب الایمان (ترجمہ)، ٥٦٥ )
٢ - [ مجازا ] اغوا کرنا، بھگا لے جانا۔
 لجا اس کو پھسلا کے تو اپنے گھر بلا قاضی کوں اور وہاں عقد کر    ( ١٦٠٩ء، قطب مشتری، ٩٧ )
٣ - بھلاوا دینا، بہلانا، (کسی طرف سے) توجہ ہٹانا، بہکانا۔
"مرد. عورتوں کو جلدی اپنی چاپلوسی سے پھسلا سکتے ہیں"      ( ١٩٠٤ء، خالد، ٩٣ )
٤ - (دل فریب باتوں سے) خوش کرنا۔
"میرے حسن کی تعریف میں تم نے جو فلسفہ بیان کیا ہے وہ مجھے پھسلانے کے لیے خوب ہے"      ( ١٩٤٠ء، ساغرِ محبت، ٦٠ )
٥ - کسی سے نرمی سے بات کرنا۔ (پلیٹس)
٦ - [ مجازا ]  بچوں کو چپ رکھنے کے لیے کسی طرح ان کا دھیان دوسری طرف کرنا، بہلا کر خاموش اور مطمئن کرنا، بھلاوا دینا۔
"جب سے حضرت شہید ہوئے تھے ہمیشہ پوچھتی تھی کہ ابن ابی . پھوپھیاں اسے روز پھسلاتی تھیں"      ( ١٧٣٢ء، کربل کتھا، ٢٧٣ )
٧ - منانا، اطمینان دلانے کے لیے منت سماجت کرنا یا میھٹی میھٹی باتوں میں لگانا۔
 نامہ بر پھسلانہ پیغامِ زبانی سے مجھے لااگر لایا ہے نامہ کوئی میرے نام کا      ( ١٨٦١ء، دیوان ناظم، ٥١ )
  • (lit.)"to speak softly to";  to coax;  to amuse
  • divert
  • humour
  • fondle;  to cajole
  • wheedle
  • entice
  • seduce
  • decoy