پھڑکانا

( پَھڑْکانا )
{ پَھڑ + کا + نا }
( ہندی )

تفصیلات


پھڑکانا  پَھڑْکانا

ہندی سے اردو میں اصل صورت اور مفہوم کے ساتھ داخل ہوا۔ اردو میں بطور مصدر استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٨٥٤ء کو "ذوق (نوراللغات)" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

فعل متعدی
١ - ہلانا، جنبش دینا۔
"گیڈر ٹکٹکی لگائے گھورا کرتے تھے اور مونچھیں پھڑکایا کرتے تھے"    ( ١٩٤٩ء، آپ بیتی، ولایت حسین، ٨٣ )
٢ - پروں کو پھٹپھٹانا، پھڑ پھڑانا۔
"سارس . اپنے سفید پروں کو کھول کر پانی میں پھڑکاتا۔"    ( ١٩٧٣ء، ایک تھی جھیل، ٦ )
٣ - پھڑکا مارنا، تڑپانا، بیقرار کرنا۔
 شوق پرواز میں پھڑکاتے ہیں بسمل سا مجھے اور ایذا قفس تنگ میں پر دیتے ہیں    ( ١٨٨١ء، دیوانِ ماہ، ٨٣ )
٤ - ترسانا۔
"میں تمہاری خدمت گذار ہوں، مجھے بچوں کی صورت کو نہ پھڑکانا"    ( ١٩١٧ء، شامِ زندگی، ١٥٢ )
٥ - (مجازاً) شان دکھنا، اترانا۔ (پلیٹس)
٦ - زیب بدن کرنا، پہننا، پھڑک دکھانا۔
"یہ ہندو کی لڑکی کون ہے جو لہنگا پھر یا پھڑکاتی سٹ اندر سٹ باہر آتی جاتی ہے"      ( ١٩٣١ء، رسوا، خورشید بہو، ٦٥ )
٧ - کبوتر کے پنجے پکڑ کر دیر تک ہلانا۔
 رہے ہر طرح سے میدی کے کبوتر کی طرح صلح بھی ٹھہری تو پھڑکا ہی کے چھوڑا ہم کو      ( ١٨٥٤ء، ذوق (نوراللغات) )
٨ - [ مرغ بازی ]  بازی کے مرغ کا دل بڑھانے کو کمزور مرغ سے پھڑانا یا دو دو چونچیں لڑانا۔ بازی کے لیے تیار کرنا، پھڑی دینا۔ (اصطلاحاتِ پیشہ وراں، 111:8)
  • To cause to flutter