پھلنا

( پَھلْنا )
{ پَھل + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


پھل  پَھلْنا

سنسکرت سے ماخوذ اسم 'پھل' کے ساتھ اردو قاعدے کے تحت علامتِ مصدر 'نا' ملنے سے 'پھلنا' بنا۔ بطور مصدر استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٧٩٨ء کو "دیوانِ سوز" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - (درخت کا) بارور ہونا، پھل نمودار ہونا۔
"ایک درخت امرود کا ہے ہر سال . وہ پھلتا ہے"    ( ١٩٧٣ء، مطلع العجائب، ٢٤٧ )
٢ - (شجر کا) پھل لانا، پرثمر ہونا۔
"یہ سب چیزیں جب پھلیں ان کے پھل بے تامل کھاؤ"    ( ١٩٠٦ء، الحقوق والفرائض، ١٢٥:٣ )
٣ - (کھیتی کا) نشو و نما پانا، اپچنا۔
 محنت بغیر مُزد کسی کو ملا نہیں بے جوتے بوے کھیت کسی کا پھلا نہیں    ( ١٩١٢ء، نذیر احمد، نظم بے نظیر، ٩٣ )
٤ - آبلوں، دانوں یا پھنسیوں کا کثرت کے ساتھ بدن پر نکل آنا۔
 یوں لگی دل کی کہیں بجھتی ہے میرا کیا گیا آپ کی تلوار ساری آبلوں سے پھل گئی      ( ١٩٠٥ء، گفتارِ بیخود، ٢٧٤ )
٥ - (کسی چیز کا کسی کو) مبارک ہونا، راس آنا۔
"آپ کا کھیت ہمیں پھلا نہیں جب سے ہم نے لیا ہے ہمارا گھر تباہ ہو رہا ہے"      ( ١٩٥٨ء، خونِ جگر ہونے تک، ٢١٦ )
٦ - کامیاب ہونا؛ مقصد سے ہمکنار ہونا۔
 اچھی نہیں یہ خلش رقیبو کانٹے بو کر کوئی بھلا ہے      ( ١٨٣٦ء، ریاض البحر، ٢٢٩ )
٧ - (کسی چیز کا)فروغ پانا، ترقی کرنا۔
 محبت کے اعجاز نے بے نظیر غزل کو میری خوب پھلنے دیا      ( ١٩٣٢ء، بے نظیر، کلام، ٣٦ )
٨ - اقبال مند ہونا، خوش نصیب ہونا۔ (نوراللغات)
٩ - خاندان بڑھنا، کثرت سے اولاد ہونا۔
 پوتوں پھلنا تجھے اور دودھوں نہانا ہو نصیب بیاہ ہو سونے کے سہرے سے تیری عمر دراز    ( ١٨١٨ء، انشا، کلیات، ١٩٥ )
  • to bear fruit
  • be in fruit
  • to produce;  to have issue