زبوں حالی

( زَبُوں حالی )
{ زبُوں + حا + لی }

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم صفت 'زبوں' کے ساتھ عربی زبان سے ماخوذ اسم 'حال' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ کیفیت لگانے سے حالی بنا اور مرکب 'زبوں حالی' بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٩١٣ء کو "فلسفیانہ مضامین" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
١ - خستہ حالی، معاشی طور پر گری ہوئی حالت، مفلسی۔
"انہوں نے پاکستان آرٹس کونسل کراچی کی زبوں حالی اور موجودہ گروپنگ و اجارہ داری پر تنقید کرتے ہوئے کہا۔"      ( ١٩٨٨ء، جنگ، کراچی، اپریل، ١٤ )
  • زَبُوں صُورَت