شجرہ

( شَجَرَہ )
{ شَجَرَہ }
( عربی )

تفصیلات


شجر  شَجَر  شَجَرَہ

عربی سے ماخوذ اسم 'شجر' کے ساتھ 'ہ' بطور لاحقۂ نسبت بڑھانے سے 'شجرہ' بنا۔ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ اور سب سے پہلے ١٨١٦ء کو "دیوانِ ناسخ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : شَجَرے [شَجَرے]
جمع   : شَجَرے [شَجَروں]
جمع غیر ندائی   : شَجَروں [شَجَروں (و مجہول)]
١ - درخت، شجر، پیڑ، ایک درخت۔
 حلّۂ نور بنے شجرۂ طوبٰی کے ورق ہوئی آراستہ زیور سے ہر اک حورالعین      ( ١٨٨١ء، اسیر (میر ظفر علی)، مجمع البحرین، ٩:٢ )
٢ - نقشہ یا تحریر جس میں کسی خاندان کے سب سے بزرگ اور اس کی اولاد کا ترتیب وار نام اور بعض اوقات مختصر حالات بھی درج ہوں، نسب نامہ جو عموماً درخت کی شکل میں بھی بنایا جاتا ہے۔
"یہی نہیں ان سب کا گروپ فوٹو فریم شدہ اور شجرہ بھی ملے گا"    ( ١٩٨٩ء، افکار، کراچی، اپریل، ٣ )
٣ - وہ تحریر جس میں کسی سلسلۂ طریقت کے مشائخ کے نام سلسلہ وار درج (عموماً) ہر مرید کو بیعت ہونے کے بعد دیا جاتا ہے تاکہ بعیت ہونے والا پورے سلسلہ کے بزرگوں سے واقف ہو جائے۔
"مغرب کے بعد مستورات کی بیعت اور پھر مردوں کی بیعت کا سلسلہ جاری رہا شجرے ختم ہو گئے اگرچہ زائد مقدار میں آئے تھے"    ( ١٩٢٤ء، روزنامچۂ حسن نظامی، ٢٩ )
٤ - [ عروض ] وہ نقشہ جس میں رباعی کے بارہ بارہ اور ان میں علیحدہ علیحدہ مفعول کو ایک کی بیغ اور مفعولن کو دوسرے کی جڑ قائم کر کے باقی فروع کو شاخوں کی مثل لکھ کر درخت کی شکل بناتے ہیں۔
"عروضیوں نے رباعی کے چوبیس وزن ڈھونڈ نکالے.ان سب کے دوشجرے بنائے اور ہر شجرے میں بارہ وزن ٹھہرائے"    ( ١٨٧١ء، قواعدِ العروض، ١٢٨ )
٥ - نقشہ جو کسی معین پیمانے کے مطالق نہ بنایا گیا ہو لیکن ہر قطعہ زمین جس کا اندراج خسرے میں ہوتا ہے اس میں مل جاتا ہے، نقشۂ کشت وار جس کو شجرہ کہتے ہیں (پٹواری کی کتاب)۔
"دو چار دن میرا کام اور رجحان دیکھ کر مجھ سے اصل شجروں کے خطوط ملوانے لگے"      ( ١٩٧٣ء، جہانِ دانش، ٧٧ )