شبینہ

( شَبِینَہ )
{ شَبی + نَہ }
( فارسی )

تفصیلات


شب  شَبِینَہ

فارسی اسم ' شب' کے ساتھ لاحقۂ نسبت 'ینہ' ملنے سے 'شبینہ' بنا۔ اردو میں بطور صفت اور گا ہے اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٦٥ء کو "علی نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - حافظ کا تراویح میں ایک رات (یا چند راتوں) کے اندر پورا قرآن شریف ختم کرنا۔
 دل میں وہ صاحبِ قرآں آیا آج کعبہ میں شبینہ ہو گا      ( ١٩٧٠ء، ضیاء القادری (تذکرہ شعرائے بدایوں)، ٤٥:٢ )
٢ - (قدیم) رات کا وقت۔
 کیا جوں سور نوبت کروہیں چندر شبینے کوں لے کر آفوج تازیاں کی کیا پارہ جو ہل چل کا      ( ١٦٦٥ء، علی نامہ، ١٥٦ )
صفت نسبتی
١ - شب کی طرف منسوب، رات کا؛ (مجازاً) باسی۔
"بدر فوراً سوار ہو کر عبداللہ کے پاس آیا ماجرائے شبینہ مفصل سنایا"      ( ١٨٩٠ء، فسانۂ دلفریب، ٦٨ )