تفصیلات
فارسی زبان میں اسم 'جان' کے ساتھ مصدر 'کنندن' سے مشتق صیغۂ امر 'کن' بطور لاحقۂ فاعلی لگنے سے مرکب توصیفی 'جان کن' بنا اور پھر 'ی' بطور لاحقۂ کیفیت لگنے سے 'جان کنی' بنا۔ ١٨١٨ء میں اظفری کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔
اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - نزع، موت کے وقت سانس کا اکھڑنا۔
چھائی ہوئی جو رخ پہ ترے مردنی سی ہے منھ دیکھ کر ترا مجھے خود جانکنی سی ہے
( ١٩٢٩ء، مطلع انوار، ١٠٣ )
٢ - [ مجازا ] عقوبت، عذاب، ایذا۔
نہ پوچھو جرعۂ آب بقا کی تلخیاں ہم سے کہ جھیلی جاں کنی پیہم جو جینا لمحہ بھر چاہا
( ١٩٥٨ء، تارپیراہن، ٨١ )