دتکار

( دُتْکار )
{ دُت + کار }
( اردو )

تفصیلات


دُت  دُتْکار

دراصل 'دت' حقارت کی وجہ سے اچانک منہ سے نکلنے والا کلمہ ہے۔ "حکایت الصوت" نے اس کو ایک آواز بتایا ہے جس کے ساتھ 'کار' بطور لاحقۂ کیفت لگایا گیا ہے۔ اردو میں ١٧٥٤ء کو "ریاض غوثیہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - (حقارت سے) دانٹ، پھٹکار، جھڑکی، دور رہنے کے لیے یا دور ہونے کی تنبیہ۔
"جب میں انہیں دتکار چلی تو چھوٹے بھائی نے میرے ساتھ . شرارت کی"      ( ١٩٣٦ء، پریم چند، رام چرچا، ٨٣ )
  • Reproof